تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ[188]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھائو اور نہ انھیں حاکموں کی طرف لے جائو، تاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھا جائو، حالانکہ تم جانتے ہو۔ [188]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ﻇلم وستم سے اپنا کر لیا کرو، حاﻻنکہ تم جانتے ہو [188]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوةً) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو [188]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 188،

منصف، انصاف اور مدعی ٭٭

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہے جس پر کسی اور کا مال چاہیئے اور اس حقدار کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو یہ شخص کا انکار کر جائے اور حاکم کے پاس جا کر بری ہو جائے حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس پر اس کا حق ہے وہ اس کا مال مار رہا ہے اور حرام کھا رہا ہے اور اپنے تئیں کو گنہگاروں میں کر رہا ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:551/3] ‏‏‏‏

مجاہد سعید بن جبیر، عکرمہ، مجاہد، حسن، قتادہ، سدی مقاتل بن حیان، عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں کہ باوجود اس علم کے کہ تو ظالم ہے جھگڑا نہ کر، [تفسیر ابن ابی حاتم:393/1:] ‏‏‏‏ بخاری و مسلم میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں انسان ہوں میرے پاس لوگ جھگڑا لے کر آتے ہیں شاید ایک دوسرے سے زیادہ حجت باز ہو اور میں اس کی چکنی چپڑی تقریر سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں [ حالانکہ درحقیقت میرا فیصلہ واقعہ کے خلاف ہو ] ‏‏‏‏ تو سمجھ لو کہ جس کے حق میں اس طرح کے فیصلہ سے کسی مسلمان کے حق کو میں دلوا دوں وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے خواہ اٹھا لے خواہ نہ اٹھائے، [صحیح بخاری:2680] ‏‏‏‏ میں کہتا ہوں یہ آیت اور حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ حاکم کا حکم کسی معاملہ کی حقیقت کو شریعت کے نزدیک بدلتا نہیں، فی الواقع بھی نفس الامر کے مطابق ہو تو خیر ورنہ حاکم کو تو اجر ملے گا، لیکن اس فیصلہ کی بنا پر حق کو ناحق بنا لینے والا اللہ کا مجرم ٹھہرے گا اور اس پر وبال باقی رہے گا، جس پر آیت مندرجہ بالا گواہ ہے، کہ تم اپنے دعوے کو باطل ہونے کا علم رکھتے ہوئے لوگوں کے مال مار کھانے کے لیے جھوٹے مقدمات بنا کر جھوٹے گواہ گزار کر ناجائز طریقوں سے حکام کو غلطی کھلا کر اپنے دعووں کو ثابت نہ کیا کرو،

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگو! سمجھ لو کہ قاضی کا فیصلہ تیرے لیے حرام کو حلال نہیں کر سکتا اور نہ باطل کو حق کر سکتا ہے، قاضی تو اپنی عقل سمجھ سے گواہوں کی گواہی کے مطابق ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیتا ہے اور وہ بھی آخر انسان ممکن ہے خطا کرے اور ممکن ہے خطا سے بچ جائے تو جان لو کہ اگر فیصلہ قاضی کا واقعہ کے خلاف ہو تو تم صرف قاضی کا فیصلہ اسے جائز مال نہ سمجھ لو یہ جھگڑا باقی ہی ہے یہاں تک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دونوں جمع کرے اور باطل والوں پر حق والوں کو غلبہ دے کر ان کا حق ان سے دلوائے اور دنیا میں جو فیصلہ ہوا تھا اس کے خلاف فیصلہ صادر فرما کر اس کی نیکیوں میں اسے بدلہ دلوائے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:550/3] ‏‏‏‏
685



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.