تفسير ابن كثير



سورۃ النحل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ[120] شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ[121] وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ[122] ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ[123]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک ابراہیم ایک امت تھا، اللہ کا فرماں بردار، ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا اور وہ مشرکوں سے نہ تھا۔ [120] اس کی نعمتوں کا شکر کرنے والا۔ اس نے اسے چن لیا اور اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔ [121] اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بے شک وہ آخرت میں بھی یقینا نیک لوگوں سے ہے۔ [122] پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم کی ملت کی پیروی کر، جو ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ [123]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بےشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور یک طرفہ مخلص تھے۔ وه مشرکوں میں سے نہ تھے [120] اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں اپنا برگزیده کر لیا تھا اور انہیں راه راست سجھا دی تھی [121] ہم نے اسے دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بےشک وه آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں [122] پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے [123]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بےشک ابراہیم (لوگوں کے) امام اور خدا کے فرمانبردار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے [120] اس کی نعمتوں کے شکرگزار تھے۔ خدا نے ان کو برگزیدہ کیا تھا اور (اپنی) سیدھی راہ پر چلایا تھا [121] اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبی دی تھی۔ اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے [122] پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی اختیار کرو جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے [123]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 120، 121، 122، 123،

جد از انبیاء ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ہدیات کے امام ٭٭

امام حنفا، والد انبیاء، خلیل الرحمان، رسول جل وعلا، ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے۔ «أُمَّةُ» کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتداء کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گزار فرماں بردار کو، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جانے والا۔

اسی لئیے فرمایا کہ ” وہ مشرکوں سے بیزار تھا “۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے جب «أُمَّةً قَانِتًا» کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلائی سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کرنے والا۔‏‏‏‏

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم۔‏‏‏‏ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ غلطی کرگئے ایسے تو قرآن کے مطابق خلیل الرحمن علیہ السلام تھے۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو امت فرمایا ہے۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی؟ اور قانت کے کیا معنی؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے۔ بیشک معاذ ایسے ہی تھے۔‏‏‏‏ [تفسیر ابن جریر الطبری:660/7:] ‏‏‏‏
4552

حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد ومومن تھے۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے۔‏‏‏‏ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے۔ اللہ کی نعمتوں کے قدرداں اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا «وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ» [53-النجم:37] ‏‏‏‏ ” وہ ابراہیم علیہ السلام جس نے پورا کیا “ یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا، اور ان پر علم بجا لایا۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنا لیا۔

جیسے فرمان ہے «وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ» [21-الأنبياء:51] ‏‏‏‏ الخ، ” ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم (‏‏‏‏علیہ السلام) کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے “۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» کی وہ عبادت واطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے۔

ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے۔ ان کے کمال، ان کی عظمت، ان کی محبت، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ ” اے خاتم رسل اے سیدالانبیاءت جھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا “۔

سورۃ الانعام میں ارشاد ہے «قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» [6-الأنعام:161] ‏‏‏‏ الخ، ” کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا “۔
4553



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.