تفسير ابن كثير



سورۃ الإسراء/بني اسرائيل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا[13] اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا[14]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ہر انسان کو، ہم نے اسے اس کا نصیب اس کی گردن میں لازم کر دیا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے، جسے وہ کھولی ہوئی پائے گا۔ [13] اپنی کتاب پڑھ، آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔ [14]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہٴ اعمال نکالیں گے جسے وه اپنے اوپر کھلا ہوا پالے گا [13] لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے [14]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بہ صورت کتاب) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے۔ اور قیامت کے روز (وہ) کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا [13] (کہا جائے گا کہ) اپنی کتاب پڑھ لے۔ تو آج اپنا آپ ہی محاسب کافی ہے [14]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 13، 14،

انسان کے اعمال ٭٭

اوپر کی آیتوں میں زمانے کا ذکر کیا جس میں انسان کے اعمال ہوتے ہیں اب یہاں فرمایا ہے کہ اس کا جو عمل ہوتا ہے بھلا ہو یا برا وہ اس پر چپک جاتا ہے بدلہ ملے گا۔ نیکی کا نیک۔ بدی کا بد۔ خواہ وہ کتنی ہی کم مقدار میں کیوں نہ ہو؟ جیسے فرمان ہے «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ» ‏‏‏‏ [99-الزلزلة:7-8] ‏‏‏‏ ” ذرہ برابر کی خیر اور اتنی ہی شر ہر شخص قیامت کے دن دیکھ لے گا۔ “

اور جیسے فرمان ہے «‏‏‏‏إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ» ‏‏‏‏ [50-ق:17-18] ‏‏‏‏ ” دائیں اور بائیں جانب وہ بیٹھے ہوئے ہیں جو بات منہ سے نکلے وہ اسی وقت لکھ لیتے ہیں۔ “

اور جگہ ہے آیت «وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ * كِرَامًا كَاتِبِينَ * يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ * إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ * وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ» ‏‏‏‏ [82-الإنفطار:10] ‏‏‏‏ ” تم پر نگہبان ہیں جو بزرگ ہیں اور لکھنے والے ہیں۔ تمہارے ہر ہر فعل سے باخبر ہیں۔ “

اور آیت میں ہے «إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ» [52-الطور:16] ‏‏‏‏ ” تمہیں صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ “

اور جگہ ہے «مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ» [4-النساء:123] ‏‏‏‏ ” ہر برائی کرنے والے کو سزا دی جائے گی۔ “



مقصود یہ کہ ابن آدم کے چھوٹے بڑے ظاہر و باطن نیک و بد اعمال صبح شام دن رات برابر لکھے جا رہے ہیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں البتہ ہر انسان کی شامت عمل اس کی گردن میں ہے۔ ابن لہیعہ فرماتے ہیں یہاں تک کہ شگون لینا بھی۔ [مسند احمد:360/3،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ لیکن اس حدیث کی یہ تفسیر غریب ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
4642

اس کے اعمال کے مجموعے کی کتاب قیامت کے دن یا تو اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی یا بائیں میں۔ نیکوں کے دائیں ہاتھ میں اور بروں کے بائیں ہاتھ میں کھلی ہوئی ہو گی کہ وہ بھی پڑھ لے اور دوسرے بھی دیکھ لیں اس کی تمام عمر کے کل عمل اس میں لکھے ہوئے ہوں گے۔ جیسے فرمان ہے آیت «يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ» ‏‏‏‏ [75-القيامة:13-15] ‏‏‏‏ ” اس دن انسان اپنے تمام اگلے پچھلے اعمال سے خبردار کر دیا جائے گا انسان تو اپنے معاملے میں خود ہی حجت ہے گو اپنی بےگناہی کے کتنے ہی بہانے پیش کر دے۔ “

اس وقت اس سے فرمایا جائے گا کہ تو خوب جانتا ہے کہ تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ اس میں وہی لکھا گیا ہے جو تو نے کیا ہے اس وقت چونکہ بھولی بسری چیزیں بھی یاد آ جائیں گی۔ اس لیے درحقیقت کوئی عذر پیش کرنے کی گنجائش نہ رہے گی۔ پھر سامنے کتاب ہے جو پڑھ رہا ہے خواہ وہ دنیا میں ان پڑھ ہی تھا لیکن آج ہر شخص اسے پڑھ لے گا۔ گردن کا ذکر خاص طریقے پر اس لیے کیا کہ وہ ایک مخصوص حصہ ہے اس میں جو چیز لٹکا دی گئی ہو چپک گئی ضروری ہو گئی شاعروں نے بھی اس خیال کو ظاہر کیا ہے۔
4643

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے بیماری کا متعدی ہونا کوئی چیز نہیں، فال کوئی چیز نہیں، ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22131] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ ہر انسان کا شگون اس کے گلے کا ہار ہے۔ [مسند احمد:343/3:ضعیف] ‏‏‏‏

آپ کا فرمان ہے کہ ہر دن کے عمل پر مہر لگ جاتی ہے جب مومن بیمار پڑتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے اللہ تو نے فلاں کو تو روک لیا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے اس کے جو عمل تھے وہ برابر لکھتے جاؤ یہاں تک کہ میں اسے تندرست کر دوں یا فوت کر دوں۔ [مسند احمد:146/4:صحیح] ‏‏‏‏

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں «طَائِرَهُ» سے مراد عمل ہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اے ابن آدم تیرے دائیں بائیں فرشتے بیٹھے ہیں صحیفے کھلے رکھے ہیں داہنی جانب والا نیکیاں اور بائیں طرف والا بدیاں لکھ رہا ہے اب تجھے اختیار ہے نیکی کر یا بدی کر کم کر یا زیادہ تیری موت پر یہ دفتر لپیٹ دئے جائیں گے اور تیری قبر میں تیری گردن میں لٹکا دیئے جائیں گے قیامت کے دن کھلے ہوئے تیرے سامنے پیش کر دئے جائیں گے اور تجھ سے کہا جائے گا لے اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور تو ہی حساب اور انصاف کر لے۔ اللہ کی قسم وہ بڑا ہی عادل ہے جو تیرا معاملہ تیرے ہی سپرد کر رہا ہے۔
4644



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.