تفسير ابن كثير



سورۃ الإسراء/بني اسرائيل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا[20] انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا[21]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی اور ان کی بھی، تیرے رب کی بخشش سے اور تیرے رب کی بخشش کبھی بند کی ہوئی نہیں۔ [20] دیکھ ہم نے ان کے بعض کو بعض پر کس طرح فضیلت دی ہے اور یقینا آخرت درجوں میں بہت بڑی اور فضیلت دینے میں کہیں بڑی ہے۔ [21]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہر ایک کو ہم بہم پہنچائے جاتے ہیں انہیں بھی اور ا نہیں بھی تیرے پروردگار کے انعامات میں سے۔ تیرے پروردگار کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے [20] دیکھ لے کہ ان میں ایک کو ایک پر ہم نے کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت تو درجوں میں اور بھی بڑھ کر ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی بہت بڑی ہے [21]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہم اُن کو اور ان کو سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش سے مدد دیتے ہیں۔ اور تمہارے پروردگار کی بخشش (کسی سے) رکی ہوئی نہیں [20] دیکھو ہم نے کس طرح بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے۔ اور آخرت درجوں میں (دنیا سے) بہت برتر اور برتری میں کہیں بڑھ کر ہے [21]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 20، 21،

حق دار کو حق دیا جاتا ہے ٭٭

یعنی ان دونوں قسم کے لوگوں کو ایک وہ جن کا مطلب صرف دنیا ہے دوسرے وہ جو طالب آخرت ہیں دونوں قسم کے لوگوں کو ہم بڑھاتے رہتے ہیں جس میں بھی وہ ہیں، یہ تیرے رب کی عطا ہے، وہ ایسا متصرف اور حاکم ہے جو کبھی ظلم نہیں کرتا۔ مستحق سعادت کو سعادت اور مستحق شقاوت کو شقاوت دے دیتا ہے۔ اس کے احکام کوئی رد نہیں کر سکتا، اس کے روکے ہوئے کو کوئی دے نہیں سکتا اس کے ارادوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ تیرے رب کی نعمتیں عام ہیں، نہ کسی کے روکے رکیں، نہ کسی کے ہٹائے ہٹیں وہ نہ کم ہوتی ہیں نہ گھٹتی ہیں۔

دیکھ لو کہ دنیا میں ہم نے انسانوں کے کیسے مختلف درجے رکھے ہیں ان میں امیر بھی ہیں، فقیر بھی ہیں درمیانہ حالت میں بھی ہیں، اچھے بھی ہیں، برے بھی ہیں اور درمیانہ درجے کے بھی۔ کوئی بچپن میں مرتا ہے، کوئی بوڑھا بڑا ہوکر، کوئی اس کے درمیان۔ آخرت درجوں کے اعتبار سے دنیا سے بھی بڑھی ہوئی ہے کچھ تو طوق و زنجیر پہنے ہوئے جہنم کے گڑھوں میں ہوں گے، کچھ جنت کے درجوں میں ہوں گے، بلند و بالا بالا خانوں میں نعمت و راحت سرور و خوشی میں، پھر خود جنتیوں میں بھی درجوں کا تفاوت ہو گا ایک ایک درجے میں زمین و آسمان کا سا تفاوت ہوگا۔

جنت میں ایسے ایک سو درجے ہیں۔ بلند درجوں والے اہل علین کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم کسی چمکتے ستارے کو آسمان کی اونچائی پر دیکھتے ہو۔ [صحیح بخاری:3256] ‏‏‏‏

پس آخرت درجوں اور فضیلتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہے، طبرانی میں ہے جو بندہ دنیا میں جو درجہ چڑھنا چاہے گا اور اپنی خواہش میں کامیاب ہو جائے گا وہ آخرت کا درجہ گھٹا دے گا جو اس سے بہت بڑا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ [طبرانی کبیر:6101:ضعیف] ‏‏‏‏
4670



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.