تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ[214]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جائو گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی؟ سن لو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔ [214]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حاﻻنکہ اب تک تم پر وه حاﻻت نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے [214]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعوبتوں میں) ہلا ہلا دیئے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب خدا کی مدد آئے گی ۔ دیکھو خدا کی مدد (عن) قریب (آيا چاہتی) ہے [214]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 214،

ہم سب کو آزمائش سے گزرنا ہے ٭٭

مطلب یہ ہے کہ آزمائش اور امتحان سے پہلے جنت کی آرزوئیں ٹھیک نہیں اگلی امتوں کا بھی امتحان لیا گیا، انہیں بھی بیماریاں مصیبتیں پہنچیں، «بأساء» کے معنی فقیری [تفسیر ابن ابی حاتم:217/2] ‏‏‏‏ «وضراء» کے معنی سخت بیماری بھی کیا گیا ہے۔ «وَزُلْزِلُوا» ان پر دشمنوں کا خوف اس قدر طاری ہوا کہ کانپنے لگے ان تمام سخت امتحانوں میں وہ کامیاب ہوئے اور جنت کے وارث بنے، صحیح حدیث میں ہے ایک مرتبہ سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہماری امداد کی دعا نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس ابھی سے گھبرا اٹھے سنو تم سے اگلے موحدوں کو پکڑ کر ان کے سروں پر آرے رکھ دئیے جاتے تھے اور چیر کر ٹھیک دو ٹکڑے کر دئیے جاتے تھے لیکن تاہم وہ توحید وسنت سے نہ ہٹتے تھے، لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت پوست نوچے جاتے تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو نہیں چھوڑتے تھے، قسم اللہ کی اس میرے دین کو تو میرا رب اس قدر پورا کرے گا کہ بلا خوف وخطر صنعاء سے حضر موت تک سوار تنہا سفر کرنے لگے گا اسے سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہو گا، البتہ دل میں یہ خیال ہونا اور بات ہے کہ کہیں میری بکریوں پر بھیڑیا نہ پڑے لیکن افسوس تم جلدی کرتے ہو، [صحیح بخاری:6943] ‏‏‏‏

قرآن میں ٹھیک یہی مضمون دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ آیت «الم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ» [ 29۔ العنکبوت: 3-1 ] ‏‏‏‏ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض ایمان کے اقرار سے ہی چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ ہو گی ہم نے تو اگلوں کی بھی آزمائش کی سچوں کو اور جھوٹوں کو یقیناً ہم نکھار کر رہیں گے، چنانچہ اسی طرح صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کی پوری آزمائش ہوئی یوم الاحزاب کو یعنی جنگ خندق میں ہوئی جیسے خود قرآن پاک نے اس کا نقشہ کھینچا ہے فرمان ہے آیت «إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّـهِ الظُّنُونَا هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا» [ 33-الأحزاب: 10 - 12 ] ‏‏‏‏ یعنی جبکہ کافروں نے تمہیں اوپر نیچے سے گھیر لیا جبکہ آنکھیں پتھرا گئیں اور دل حلقوم تک آ گئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ گمان ہونے لگے اس جگہ مومنوں کی پوری آزمائش ہو گئی اور وہ خوب جھنجھوڑ دئیے گئے جبکہ منافقوں کو اور ڈھل مل گئی یقیناً لوگ کہنے لگے کہ اللہ رسول کے وعدے تو غرور کے ہی تھے۔

ہرقل نے جب ابوسفیان سے ان کے کفر کی حالت میں پوچھا تھا کہ تمہاری کوئی لڑائی بھی اس دعویدار نبوت سے ہوئی ہے ابوسفیان نے کہا ہاں پوچھا پھر کیا رنگ رہا کہا کبھی ہم غالب رہے کبھی وہ غالب رہے تو ہرقل نے کہا انبیاء علیہم السلام کی آزمائش اسی طرح ہوتی رہتی ہے لیکن انجام کار کھلا غلبہ انہیں کا ہوتا ہے۔ [صحیح بخاری:7] ‏‏‏‏
755

مثل کے معنی طریقہ کے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت «فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُم بَطْشًا وَمَضَىٰ مَثَلُ الْأَوَّلِينَ» [ 43۔ الزخرف: 8 ] ‏‏‏‏، اگلے مومنوں نے مع نبیوں کے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کی اور سخت اور تنگی سے نجات چاہی جنہیں جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کی امداد بہت ہی نزدیک ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» [ 94۔ الشرح: 6-5 ] ‏‏‏‏، یقیناً سختی کے ساتھ آسانی ہے برائی کے ساتھ بھلائی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ بندے جب ناامید ہونے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تعجب کرتا ہے کہ میری فریاد رسی تو آپہنچنے کو ہے اور یہ ناامید ہوتا چلا جا رہا ہے پس اللہ تعالیٰ ان کی عجلت اور اپنی رحمت کے قرب پر ہنس دیتا ہے۔ [مسند احمد:11/4:ضعیف] ‏‏‏‏
756



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.