تفسير ابن كثير



سورۃ مريم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا[10] فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[11]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہا اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے۔ فرمایا تیری نشانی یہ ہے کہ تو تندرست ہوتے ہوئے لوگوں سے تین راتیں بات نہیں کرے گا۔ [10] تو وہ عبادت خانے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آیا، پس انھیں اشارے سے کہا کہ پہلے اور پچھلے پہر تسبیح کرو۔ [11]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کہنے لگے میرے پروردگار میرے لئے کوئی علامت مقرر فرما دے، ارشاد ہوا کہ تیرے لئے علامت یہ ہے کہ باوجود بھلا چنگا ہونے کے تو تین راتوں تک کسی شخص سے بول نہ سکے گا [10] اب زکریا (علیہ السلام) اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں اشاره کرتے ہیں کہ تم صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو [11]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہا کہ پروردگار میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما۔ فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم صحیح وسالم ہو کر تین (رات دن) لوگوں سے بات نہ کرسکو گے [10] پھر وہ (عبادت کے) حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام (خدا کو) یاد کرتے رہو [11]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 10، 11،

تشفی قلب کے لیے ایک اور مانگ ٭٭

حضرت زکریا علیہ السلام اپنے مزیداطمینان اور تشفی قلب کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس بات پر کوئی نشان ظاہر فرما۔‏‏‏‏ جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے مردوں کے جی اٹھنے کے دیکھنے کی تمنا اسی لیے ظاہر فرمائی تھی «رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي» [2-البقرہ:260] ‏‏‏‏ تو ارشاد ہوا کہ ” تو گونگا نہ ہوگا بیمار نہ ہوگا لیکن تیری زبان لوگوں سے باتیں نہ کرسکے گی تین دن رات تک یہی حالت رہے گی “۔ یہی ہوا بھی کہ تسبیح، استغفار، حمد و ثنا وغیرہ پر تو زبان چلتی تھی لیکن لوگوں سے بات نہ کر سکتے تھے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ «سَوِيًّا» کے معنی پے در پے کے ہیں یعنی مسلسل برابر تین شبانہ روز تمہاری زبان دنیوی باتوں سے رکی رہے گی۔ پہلا قول بھی آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے اور جمہور کی تفسیر بھی یہی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔

چنانچہ سورۃ آل عمران میں اس کا بیان بھی گزر چکا ہے کہ «قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ» [3-آل عمران:41] ‏‏‏‏ علامت طلب کرنے پر فرمان ہوا کہ ” تین دن تک تم صرف اشاروں کنایوں سے لوگوں سے باتیں کر سکتے ہو۔ ہاں اپنے رب کی یاد بکثرت کرو اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو “۔

پس ان تین دن رات میں آپ علیہ السلام کسی انسان سے کوئی بات نہیں کر سکتے تھے ہاں اشاروں سے اپنا مطلب سمجھا دیا کرتے تھے لیکن یہ نہیں کہ آپ علیہ السلام گونگے ہوگئے ہوں۔ اب آپ علیہ السلام اپنے حجرے سے، جہاں جا کر تنہائی میں اپنے ہاں اولاد ہونے کی دعا کی تھی، باہر آئے اور جو نعمت اللہ نے آپ علیہ السلام پر انعام کی تھی اور جس تسبیح و ذکر کا آپ علیہ السلام کو حکم ہوا تھا، وہی قوم کو بھی حکم دیا لیکن چونکہ بول نہ سکتے تھے، اس لیے انہیں اشاروں سے سمجھایا یا زمین پر لکھ کر انہیں سمجھا دیا۔
5032



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.