تفسير ابن كثير



سورۃ مريم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا[24] وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا[25] فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا[26]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو اس نے اسے اس کے نیچے سے آواز دی کہ غم نہ کر، بے شک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک ندی (جاری) کر دی ہے۔ [24] اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گی۔ [25] پس کھا اور پی اور ٹھنڈی آنکھ سے رہ، پھر اگر کبھی تو آدمیوں میں سے کسی کو دیکھے تو کہہ میں نے تو رحمان کے لیے روزے کی نذرمانی ہے، سو آج میں ہرگز کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔ [26]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اتنے میں اسے نیچے سے ہی آواز دی کہ آزرده خاطر نہ ہو، تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے [24] اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، یہ تیرے سامنے تروتازه پکی کھجوریں گرا دے گا [25] اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ، اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑ جائے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمنٰ کے نام کا روزه مان رکھا ہے۔ میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی [26]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے ان کو آواز دی کہ غمناک نہ ہو تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے [24] اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی [25] تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہیں کروں گی [26]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 24، 25، 26،

مریم علیہا السلام اور معجزات ٭٭

«مِنْ تَحْتِهَا» کی دوسری قرأت «مِنْ تَحْتَهَا» بھی ہے۔ یہ خطاب کرنے والے جبرائیل علیہ السلام تھے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا تو پہلا کلام وہی تھا جو آپ نے اپنی والدہ کی برأت و پاکدامنی میں لوگوں کے سامنے کیا تھا۔ اس وادی کے نیچے کے کنارے سے اس گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں جبرائیل علیہ السلام نے یہ تشفی دی تھی۔ یہ قول بھی کہا گیا ہے کہ یہ بات عیسیٰ علیہ السلام نے ہی کہی تھی۔ آواز آئی کہ غمگین نہ ہو تیرے قدموں تلے تیرے رب نے صاف شفاف شیریں پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہے یہ پانی تم پی لو ۔ [طبرانی کبیر:13303:ضعیف] ‏‏‏‏

ایک قول یہ ہے کہ اس چشمے سے مراد خود عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے۔ چنانچہ اس پانی کے ذکر کے بعد ہی کھانے کا ذکر ہے کہ کھجور کے اس درخت کو ہلاؤ اس میں سے تروتازہ کھجوریں جھڑیں گی وہ کھاؤ۔ کہتے ہیں یہ درخت سوکھا پڑا ہوا تھا اور یہ قول بھی ہے کہ پھل دار تھا۔ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ درخت کھجوروں سے خالی تھا لیکن آپ کے ہلاتے ہی اس میں سے قدرت الٰہی سے کھجوریں جھڑنے لگیں، کھانا پینا سب کچھ موجود ہو گیا اور اجازت بھی دے دی۔ فرمایا کھا پی اور دل کو مسرور رکھ۔
5056

حضرت عمرو بن میمون رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ نفاس والی عورتوں کے لیے تر کھجوروں سے اور خشک کھجوروں سے بہتر اور کوئی چیز نہیں۔

ایک حدیث میں ہے، کھجور کے درخت کا اکرام کرو۔ یہ اسی مٹی سے پیدا ہوا ہے جس سے آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اس کے سوا اور کوئی درخت نر مادہ مل کر نہیں پھلتا۔ عورتوں کو ولادت کے وقت تر کھجوریں کھلاؤ، نہ ملیں تو خشک ہی سہی۔ کوئی درخت اس سے بڑھ کر اللہ کے پاس مرتبے والا نہیں۔ اسی لیے اس کے نیچے مریم علیہ السلام کو اتارا ۔ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:263،] ‏‏‏‏ یہ حدیث بالکل منکر ہے۔

«تُسَاقِطْ» کی دوسری قرأت «تَسَّاقَطْ» اور «تُسْقِطْ» بھی ہے۔ مطلب تمام قرأتوں کا ایک ہی ہے۔ پھر ارشاد ہوا کہ ” کسی سے بات نہ کرنا اشارے سے سمجھا دینا کہ میں آج روزے سے ہوں “۔ یا تو مراد یہ ہے کہ ان کے روزے میں کلام ممنوع تھا یا یہ کہ میں نے بولنے سے ہی روزہ رکھا ہے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کے پاس دو شخص آئے، ایک نے تو سلام کیا، دوسرے نے نہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس کی کیا وجہ؟ لوگوں نے کہا اس نے قسم کھائی ہے کہ آج یہ کسی سے بات نہ کرے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے توڑ دے، سلام کلام شروع کر، یہ تو صرف مریم علیہا السلام کے لیے ہی تھا کیونکہ اللہ کو آپ کی صداقت وکرامت ثابت کرنا منظور تھی اس لیے اسے عذر بنا دیا تھا۔

عبدالرحمٰن بن زید کہتے ہیں، جب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، تو آپ رضی اللہ عنہا نے کہا میں کیسے نہ گھبراؤں، خاوند والی میں نہیں، کسی کی ملکیت کی لونڈی باندی میں نہیں، مجھے دنیا نہ کہے گی کہ یہ بچہ کیسے ہوا؟ میں لوگوں کے سامنے کیا جواب دے سکوں گی؟ کون سا عذر پیش کر سکوں گی؟ ہاے کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی، کاش کہ میں نسیا منسیا ہو گئی ہوتی۔

اس وقت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا، اماں آپ کو کسی سے بولنے کی ضرورت نہیں۔ میں آپ ان سب سے نمٹ لوں گا۔ آپ تو انہیں صرف یہ سمجھا دینا کہ آج سے آپ نے چپ رہنے کی نذر مان لی ہے۔‏‏‏‏
5057



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.