تفسير ابن كثير



سورۃ مريم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا[46] قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا[47] وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا[48]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اس نے کہا کیا بے رغبتی کرنے والا ہے تو میرے معبودوں سے اے ابراہیم!؟ یقینا اگر تو باز نہ آیا تو میں ضرور ہی تجھے سنگسار کر دوں گا اور مجھے چھوڑ جا، اس حال میں کہ تو صحیح سالم ہے۔ [46] کہا تجھ پر سلام ہو، میں اپنے رب سے تیرے لیے ضرور بخشش کی دعا کروں گا، بے شک وہ ہمیشہ سے مجھ پر بہت مہربان ہے۔ [47] اور میں تم سے اور ان چیزوں سے جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، کنارہ کرتا ہوں اور اپنے رب کو پکارتا ہوں، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارنے میں بے نصیب نہیں ہوں گا۔ [48]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا، جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ ره [46] کہا اچھا تم پر سلام ہو، میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، وه مجھ پر حد درجہ مہربان ہے [47] میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو انہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں۔ صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا [48]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اس نے کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے؟ اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا [46] ابراہیم نے سلام علیک کہا (اور کہا کہ) میں آپ کے لئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا۔ بےشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے [47] اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ خدا کے سوا پکارا کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا۔ امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا [48]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 46، 47، 48،

باپ کی ابراہیم علیہ السلام کو دھمکی ٭٭

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس طرح سمجھانے پر ان کے باپ نے جو جہالت کا جواب دیا، وہ بیان ہو رہا ہے کہ اس نے کہا ابراہیم (‏‏‏‏علیہ السلام) تو میرے معبودوں سے بیزار ہے، ان کی عبادت سے تجھے انکار ہے، اچھا سن رکھ، اگر تو اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا اور انہیں برا کہتا رہا اور ان کی عیب جوئی اور انہیں گالیاں دینے سے نہ رکا تو میں تجھے سنگسار کر دونگا۔ مجھے تو تکلیف نہ دے، نہ مجھ سے کچھ کہہ۔ یہی بہتر ہے کہ تو سلامتی کے ساتھ مجھ سے الگ ہو جائے ورنہ میں تجھے سزا دوں گا۔ مجھ سے تو تو اب ہمیشہ کے لیے گیا گزرا۔‏‏‏‏

ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اچھا خوش رہو، میری طرف سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی کیونکہ آپ میرے والد ہیں بلکہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو نیک توفیق دے اور آپ کے گناہ بخشے۔‏‏‏‏ مومنوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ وہ جاہلوں سے بھڑتے نہیں، جیسے کہ قرآن میں ہے «وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا» [25-الفرقان:63] ‏‏‏‏ ” جاہلوں سے جب ان کا خطاب ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام “۔

اور آیت میں ہے «وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَ‌ضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ» [28-القصص:55] ‏‏‏‏ ” لغو باتوں سے وہ منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ، تمہارے اعمال تمہارے ساتھ، تم پر سلام ہو۔ ہم جاہلوں کے درپے نہیں ہوتے “۔

پھر فرمایا کہ میرا رب میرے ساتھ بہت مہربان ہے، اسی کی مہربانی ہے کہ مجھے ایمان و اخلاص کی ہدایت کی۔ مجھے اس سے اپنی دعا کی قبولیت کی امید ہے۔‏‏‏‏

اسی وعدے کے مطابق آپ ان کے لیے بخشش طلب کرتے رہے۔ شام کی ہجرت کے بعد بھی، مسجد الحرام بنانے کے بعد بھی، آپ کے ہاں اولاد ہو جانے کے بعد بھی آپ کہتے رہے کہ اے اللہ مجھے، میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان والوں کو حساب کے قائم ہونے کے دن بخش دے۔‏‏‏‏ آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرو۔
5092

آپ علیہ السلام ہی کی اقتداء میں پہلے پہل مسلمان بھی ابتداء اسلام کے زمانے میں اپنے قرابت دار مشرکوں کے لیے طلب بخشش کی دعائیں کرتے رہے۔ آخر آیت نازل ہوئی کہ بیشک ابراہیم علیہ السلام قابل اتباع ہیں لیکن اس بات میں ان کا فعل اس قابل نہیں۔ اور آیت میں فرمایا «‏‏‏‏مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُ‌وا لِلْمُشْرِ‌كِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْ‌بَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ» الخ [9-التوبة:114،113] ‏‏‏‏، یعنی ” نبی کو اور ایمانداروں کو مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنا چاہیئے “ الخ۔ ” اور فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ استغفار صرف اس بناء پر تھا کہ آپ علیہ السلام اپنے والد سے اس کا وعدہ کر چکے تھے لیکن جب آپ علیہ السلام پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ علیہ السلام اس سے بری ہو گئے۔ ابراہیم علیہ السلام تو بڑے ہی اللہ دوست اور علم والے تھے “۔

پھر فرماتے ہیں کہ میں تم سب سے اور تمہارے ان تمام معبودوں سے الگ ہوں۔ میں صرف اللہ واحد کا عابد ہوں، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا، میں فقط اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں اپنی دعاؤں میں محروم نہ رہوں گا۔‏‏‏‏ واقعہ بھی یہی ہے اور یہاں پر لفظ «عَسٰی» یقین کے معنوں میں ہے اس لیے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سید الانبیاء ہیں (‏‏‏‏علیہ السلام)۔
5093



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.