تفسير ابن كثير



سورۃ مريم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَيَقُولُ الْإِنْسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا[66] أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا[67] فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا[68] ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَنِ عِتِيًّا[69] ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِينَ هُمْ أَوْلَى بِهَا صِلِيًّا[70]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور انسان کہتا ہے کیا جب میں مرگیا تو کیا واقعی عنقریب مجھے زندہ کر کے نکالا جائے گا؟ [66] اور کیا انسان یاد نہیں کرتا کہ ہم نے ہی اسے اس سے پہلے پیدا کیا، جب کہ وہ کوئی چیز نہ تھا۔ [67] تو قسم ہے تیرے رب کی! بے شک ہم ان کو اور شیطانوں کو ضرور اکٹھا کریں گے، پھر بے شک ہم انھیں جہنم کے گرد ضرور گھٹنوں کے بل گرے ہوئے حاضر کریں گے۔ [68] پھر بے شک ہم ہر گروہ میں سے اس شخص کو ضرور کھینچ نکالیں گے جو ان میں سے رحمان کے خلاف زیادہ سرکش ہے۔ [69] پھر یقینا ہم ان لوگوں کو زیادہ جاننے والے ہیں جو اس میں جھونکے جانے کے زیادہ حق دار ہیں۔ [70]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا پھر زنده کر کے نکالا جاؤں گا؟ [66] کیا یہ انسان اتنا بھی یاد نہیں رکھتا کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کیا حاﻻنکہ وه کچھ بھی نہ تھا [67] تیرے پروردگار کی قسم! ہم انہیں اور شیطانوں کو جمع کر کے ضرور ضرور جہنم کے اردگرد گھٹنوں کے بل گرے ہوئے حاضر کر دیں گے [68] ہم پھر ہر ہر گروه سے انہیں الگ نکال کھڑا کریں گے جو اللہ رحمنٰ سے بہت اکڑے اکڑے پھرتے تھے [69] پھر ہم انہیں بھی خوب جانتے ہیں جو جہنم کے داخلے کے زیاده سزاوار ہیں [70]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور (کافر) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤ گا تو کیا زندہ کرکے نکالا جاؤں گا؟ [66] کیا (ایسا) انسان یاد نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو پہلے بھی پیدا کیا تھا اور وہ کچھ بھی چیز نہ تھا [67] تمہارے پروردگار کی قسم! ہم ان کو جمع کریں گے اور شیطانوں کو بھی۔ پھر ان سب کو جہنم کے گرد حاضر کریں گے (اور وہ) گھٹنوں پر گرے ہوئے (ہوں گے) [68] پھر ہر جماعت میں سے ہم ایسے لوگوں کو کھینچ نکالیں گے جو خدا سے سخت سرکشی کرتے تھے [69] اور ہم ان لوگوں سے خوب واقف ہیں جو ان میں داخل ہونے کے زیادہ لائق ہیں [70]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 66، 67، 68، 69، 70،

منکرین قیامت کی سوچ ٭٭

بعض منکرین قیامت، قیامت کا آنا اپنے نزدیک محال سمجھتے تھے اور موت کے بعد کا جینا ان کے خیال میں ناممکن تھا۔ وہ قیامت کا اور اس دن کی دوسری اور نئے سرے کی زندگی کا حال سن کر سخت تعجب کرتے تھے۔

جیسے قرآن کا فرمان ہے «وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ» [13-الرعد:5] ‏‏‏‏ یعنی ” اگر تجھے تعجب ہے تو ان کا یہ قول بھی تعجب سے خالی نہیں کہ یہ کیا، ہم جب مر کر مٹی ہو جائیں گے، پھر ہم نئی پیدائش میں پیدا کئے جائیں گے؟ “

سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ» [36-یس:77-79] ‏‏‏‏، ” کیا انسان اسے نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا، پھر وہ ہم سے صاف صاف جھگڑا کرنے لگا اور ہم پر ہی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش کو بھلا کر کہنے لگا کہ ان ہڈیوں کو جو گل سڑ گئی ہیں، کون زندہ کر دے گا؟ تو جواب دے کہ انہیں وہ خالق حقیقی زندہ کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا تھا وہ ہر ایک اور ہر طرح کی پیدائش سے پورا باخبر ہے “۔
5126

یہاں بھی کافروں کے اسی اعتراض کا ذکر ہے کہ ہم مر کر پھر زندہ ہو کر کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ جواباً فرمایا جا رہا ہے کہ ” کیا اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کچھ نہ تھا اور ہم نے اسے پیدا کر دیا۔ شروع پیدائش کا قائل اور دوسری پیدائش کامنکر؟ جب کچھ نہ تھا تب تو اللہ اسے کچھ کر دینے پر قادر تھا اور اب جب کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو گیا، کیا اللہ قادر نہیں کہ اسے پھر سے پیدا کر دے؟ “

پس ابتدائے آفرینش دلیل ہے دوبارہ کی پیدائش پر۔ «وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ» [30-الروم:27] ‏‏‏‏ ” جس نے ابتداء کی ہے وہی اعادہ کرے گا اور اعادہ بہ نسبت ابتداء کے ہمیشہ آسان ہوا کرتا ہے “۔

صحیح حدیث میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” مجھے ابن آدم جھٹلا رہا ہے اور اسے یہ لائق نہ تھا، مجھے ابن آدم ایذاء دے رہا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہیں، اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ کہتا ہے جس طرح اللہ نے میری ابتداء کی، اعادہ نہ کرے گا حالانکہ ظاہر ہے کہ ابتداء بہ نسبت اعادہ کے مشکل ہوتی ہے اور اس کا مجھے ایذاء دینا یہ ہے کہ کہتا ہے میری اولاد ہے حالانکہ میں احد ہوں، صمد ہوں، نہ میرے ماں باپ نہ اولاد، نہ میری جنس کا کوئی اور۔ مجھے اپنی ہی قسم ہے کہ میں ان سب کو جمع کروں گا اور جن جن شیطانوں کی یہ لوگ میرے سوا عبادت کرتے تھے، انہیں بھی میں جمع کروں گا۔ پھر انہیں جہنم کے سامنے لاؤں گا جہاں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے “۔ [صحیح بخاری:4974] ‏‏‏‏

جیسے فرمان ہے «وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً» [45-الجاثية:28] ‏‏‏‏ ” ہر امت کو تو دیکھے گا کہ گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی “۔
5127

ایک قول یہ بھی ہے کہ قیام کی حالت میں ان کا حشر ہوگا۔ جب تمام اول و آخر جمع ہو جائیں گے تو ہم ان میں سے بڑے بڑے مجرموں اور سرکشوں کو الگ کر لیں گے۔ ان کے رئیس و امیر اور بدیوں و برائیوں کے پھیلانے والے ان کے یہ پیشوا، انہیں شرک و کفر کی تعلیم دینے والے، انہیں اللہ کے گناہوں کی طرف مائل کرنے والے علیحدہ کر لیے جائیں گے۔

جیسے فرمان ہے «حَتّٰى اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْهَا جَمِيْعًا قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ» [7-الأعراف:38] ‏‏‏‏ الخ، ” جب وہاں سب جمع ہو جائیں گے تو پچھلے اگلوں کی بابت کہیں گے کہ اے اللہ انہی لوگوں نے ہمیں بہکا رکھا تھا تو انہیں دگنا عذاب کر “ الخ۔

پھر خبر کا خبر پر عطف ڈال کر فرماتا ہے کہ ” اللہ خوب جانتا ہے کہ سب سے زیادہ عذابوں کا اور دائمی عذابوں کا اور جہنم کی آگ کا سزاوار کون کون ہے؟ “

جیسے دوسری آیت میں ہے کہ فرمائے گا «لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ» [7-الأعراف:38] ‏‏‏‏ ” ہر ایک کیلئے دوہرا عذاب ہے لیکن تم علم سے کورے ہو “۔
5128



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.