تفسير ابن كثير



سورۃ طه

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَى[11] إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى[12] وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى[13] إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي[14]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو جب وہ اس کے پاس آیا تو اسے آواز دی گئی اے موسیٰ! [11] بے شک میں ہی تیرا رب ہوں، سو اپنی دونوں جوتیاں اتار دے، بے شک تو پاک وادی طویٰ میں ہے۔ [12] اور میں نے تجھے چن لیا ہے، پس غور سے سن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ [13] بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ [14]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جب وه وہاں پہنچے تو آواز دی گئی اے موسیٰ! [11] یقیناً میں ہی تیرا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دے، کیونکہ تو پاک میدان طویٰ میں ہے [12] اور میں نے تجھے منتخب کر لیا اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سن [13] بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا عبادت کے ﻻئق اور کوئی نہیں پس تو میری ہی عبادت کر، اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ [14]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جب وہاں پہنچے تو آواز آئی کہ موسیٰ [11] میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو [12] اور میں نے تم کو انتخاب کرلیا ہے تو جو حکم دیا جائے اسے سنو [13] بےشک میں ہی خدا ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز پڑھا کرو [14]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 11، 12، 13، 14،

اللہ تعالٰی سے ہمکلامی ٭٭

جب موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو اس مبارک میدان کے دائیں جانب کے درختوں کی طرف سے آواز آئی کہ «فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ» [28-القصص:30] ‏‏‏‏ ” اے موسیٰ! میں تیرا رب ہوں، تو جوتیاں اتار دے۔ “

یا تو اس لیے یہ حکم ہوا کہ آپ کی جوتیاں گدھے کے چمڑے کی تھیں یا اس لیے کہ تعظیم کرانی مقصود تھی۔ جیسا کہ کعبہ جانے کے وقت لوگ جوتیاں اتار کر جاتے ہیں۔ یا اس لیے کہ اس بابرکت جگہ پر پاؤں پڑیں، اور بھی وجوہ بیان کئے گئے ہیں۔

طویٰ اس وادی کا نام تھا۔ یا یہ مطلب کہ اپنے قدم اس زمین سے ملا دو۔ یا یہ مطلب کہ یہ زمین کئی کئی بار پاک کی گئی ہے اور اس میں برکتیں بھر دی گئی ہیں اور باربار دہرائی گئی ہیں۔ لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے «اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى» ‏‏‏‏ [79-النازعات:16] ‏‏‏‏

میں نے تجھے اپنا برگزیدہ کر لیا ہے، دنیا میں سے تجھے منتخب کر لیا ہے، اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے ممتاز فرما رہا ہوں، اس وقت کے روئے زمین کے تمام لوگوں سے تیرا مرتبہ بڑھا رہا ہوں۔

کہا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا، جانتے بھی ہو کہ میں نے تجھے دوسرے تمام لوگوں میں سے مختار اور پسندیدہ کر کے شرف ہم کلامی کیوں بخشا؟ آپ نے جواب دیا اے اللہ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں، فرمایا گیا اس لیے کہ تیری طرح اور کوئی میری طرف نہیں جھکا۔ اب تو میری وحی کو کان لگا کر دھیان دے کر سن۔ میں ہی معبود ہوں کوئی اور نہیں۔

یہی پہلا فریضہ ہے تو صرف میری ہی عبادت کئے چلے جانا، کسی اور کی کسی قسم کی عبادت نہ کرنا۔ میری یاد کے لیے نمازیں قائم کرنا، میری یاد کا یہ بہترین اور افضل ترین طریقہ ہے یا یہ مطلب کہ جب میں یاد آؤں نماز پڑھو۔

جیسے حدیث میں ہے کہ تم میں سے اگر کسی کو نیند آ جائے یا غفلت ہو جائے تو جب یاد آ جائے نماز پڑھ لے کیونکہ فرمان الٰہی ہے میری یاد کے وقت نماز قائم کرو۔ [صحیح بخاری:597] ‏‏‏‏

بخاری و مسلم میں ہے جو شخص سوتے میں یا بھول میں نماز کا وقت گزار دے، اس کا کفارہ یہی ہے کہ یاد آتے ہی نماز پڑھ لے، اس کے سوا اور کفارہ نہیں۔
5191



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.