تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ[248]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ان کے نبی نے ان سے کہا بے شک اس کے بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تمھارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمھارے رب کی طرف سے ایک تسلی ہے اور اس میں سے چند باقی ماندہ چیزیں ہیں جو موسیٰ کی آل اور ہارون کی آل نے چھوڑا تھا، فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے، بے شک اس میں تمھارے لیے یقینا ایک نشانی ہے، اگر تم مومن ہو۔ [248]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ان کے نبی نے انہیں پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ﻇاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وه صندوق آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے، فرشتے اسے اٹھا کر ﻻئیں گے۔ یقیناً یہ تو تمہارے لئے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو [248]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی (بخشنے والی چیز) ہوگی اور کچھ اور چیزیں بھی ہوں گی جو موسیٰ اور ہارون چھوڑ گئے تھے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے ایک بڑی نشانی ہے [248]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 248،

تابوت سکینہ اور جنگ طالوت و جالوت ٭٭

نبی علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ طالوت کی بادشاہت کی پہلی علامت برکت یہ ہے کہ کھویا ہوا تابوت سکینہ انہیں پھر مل جائے گا، جس میں وقار و عزت دلجمعی اور جلالت رافت و رحمت ہے جس میں اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں تم بخوبی جانتے ہو، بعض کا قول ہے کہ سکینہ ایک سونے کا طشت تھا جس میں انبیاء کے دِل دھوئے جاتے تھے جو موسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا اور جس میں آپ علیہ السلام نے توراۃ کی تختیاں رکھی تھیں، کسی نے کہا ہے اس کا منہ بھی تھا جیسے انسان کا منہ ہوتا ہے اور روح بھی تھی، ہاتھ بھی تھا، دو سر تھے، دو پر تھے اور دُم بھی تھی، وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مردہ بلی کا سر تھا جب وہ تابوت میں بولتا تو انہیں نصرت کا یقین ہو جاتا اور لڑائی فتح ہو جاتی، یہ قول بھی ہے کہ یہ ایک روح تھی اللہ کی طرف سے جب کبھی بنی اسرائیل میں کوئی اختلاف پڑتا یا کسی بات کی اطلاع نہ ہوتی تو وہ کہہ دیا کرتی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے ورثے کے باقی حصے سے مراد لکڑی اور توراۃ کی تختیاں اون اور کچھ ان کے کپڑے اور جوتی ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:333/5] ‏‏‏‏
878

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ فرشتے آسمان و زمین کے درمیان اس تابوت کو اٹھائے ہوئے سب لوگوں کے سامنے لائے اور طالوت بادشاہ کے سامنے لا رکھا، اس تابوت کو ان کے ہاں دیکھ کر انہیں نبی علیہ السلام کی نبوت اور طالوت کی بادشاہت کا یقین ہو گیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:335/5] ‏‏‏‏، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گائے کے اوپر لایا گیا، بعض کہتے ہیں کہ کفار نے جب یہودیوں پر غلبہ پایا تو تابوت سکینہ کو ان سے چھین لیا اور اریحا میں لے گئے اور اپنے بڑے بت کے نیچے رکھ دیا جب اللہ کو اسے واپس بنی اسرائیل تک پہنچانا تھا، تب وہ کفار صبح کو جب بت خانے میں گئے تو دیکھا بت نیچے ہے اور تابوت اوپر ہے، انہوں نے پھر بت کو اوپر کر دیا لیکن دوسری صبح دیکھا کہ پھر وہی معاملہ ہے انہوں نے پھر بت کو اوپر کر دیا، صبح جو گئے تو دیکھا بت ایک طرف ٹوٹا پھوٹا پڑا ہے، تو یقین ہو گیا کہ یہ قدرت کے کرشمے ہیں چنانچہ انہوں نے تابوت کو یہاں سے لے جا کر کسی اور چھوٹی سی بستی میں رکھ دیا، وہاں ایک وبائی بیماری پھیلی، آخر بنی اسرائیل کی ایک عورت نے جو وہاں قید تھی، اس نے کہا کہ اسے واپس بنی اسرائیل پہنچا دو تو تمہیں اس سے نجات ملے گی، ان لوگوں نے دو گائیوں پر تابوت کو رکھ کر بنی اسرائیل کے شہر کی طرف بھیج دیا، شہر کے قریب پہنچ کر گائیں تو رسیاں تڑوا کر بھاگ گئیں اور تابوت وہیں رہا جسے بنی اسرائیل لے آئے، بعض کہتے ہیں دو نوجوان اسے پہنچا گئے «وَاللهُ اَعْلَمُ»

لیکن الفاظ قرآن میں یہ موجود ہیں کہ اسے فرشتے اٹھا لائیں گے [ مترجم ] ‏‏‏‏ یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین کی بستیوں میں سے ایک بستی میں تھا جس کا نام ازدوہ تھا۔ پھر فرماتا ہے میری نبوت کی دلیل اور طالوت کی بادشاہت کی دلیل یہ بھی ہے کہ تابوت فرشتے پہنچا جائیں گے، اگر تمہیں اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان ہو۔
879



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.