تفسير ابن كثير



سورۃ الأنبياء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ[98] لَوْ كَانَ هَؤُلَاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ[99] لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ[100] إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ[101] لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَالِدُونَ[102] لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ[103]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک تم اور جنھیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، جہنم کا ایندھن ہیں، تم اسی میں داخل ہونے والے ہو۔ [98] اگر یہ معبود ہوتے تو اس میں داخل نہ ہوتے اور یہ سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ [99] ان کے لیے ا س میں گدھے جیسی آواز ہوگی اور وہ اس میں نہیں سنیں گے۔ [100] بے شک وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے بھلائی طے ہو چکی، وہ اس سے دور رکھے گئے ہوں گے۔ [101] وہ اس کی آہٹ نہیں سنیں گے اور وہ اس میں جسے ان کے دل چاہیں گے، ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ [102] انھیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی اور انھیں (آگے سے) لینے کے لیے فرشتے آئیں گے۔ یہ ہے تمھارا وہ دن جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔ [103]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو [98] اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے، اور سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں [99] وه وہاں چلا رہے ہوں گے اور وہاں کچھ بھی نہ سن سکیں گے [100] البتہ بے شک جن کے لئے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے۔ وه سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے [101] وه تو دوزخ کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور اپنی من بھاتی چیزوں میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے [102] وه بڑی گھبراہٹ (بھی) انہیں غمگین نہ کر سکے گی اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے، کہ یہی تمہارا وه دن ہے جس کا تم وعده دیئے جاتے رہے [103]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (کافرو اس روز) تم اور جن کی تم خدا کے سوا عبادت کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔ اور تم سب اس میں داخل ہو کر رہو گے [98] اگر یہ لوگ (درحقیقت) معبود ہوتے تو اس میں داخل نہ ہوتے۔ سب اس میں ہمیشہ (جلتے) رہیں گے [99] وہاں ان کو چلاّنا ہوگا اور اس میں (کچھ) نہ سن سکیں گے [100] جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے پہلے بھلائی مقرر ہوچکی ہے۔ وہ اس سے دور رکھے جائیں گے [101] (یہاں تک کہ) اس کی آواز بھی تو نہیں سنیں گے۔ اور جو کچھ ان کا جی چاہے گا اس میں (یعنی) ہر طرح کے عیش اور لطف میں ہمیشہ رہیں گے [102] ان کو (اس دن کا) بڑا بھاری خوف غمگین نہیں کرے گا۔ اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے (اور کہیں گے کہ) یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے [103]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 98، 99، 100، 101، 102، 103،

جہنم کی ہولناکیاں ٭٭

بت پرستوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” تم اور تمہارے بت جہنم کی آگ کی لکڑیاں بنوگے “۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ» [66-التحريم:6] ‏‏‏‏ [2-البقرة:24] ‏‏‏‏ ” اس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر “۔

حبشی زبان میں حطب کو «حَصَبُ» کہتے ہیں یعنی لکڑیاں۔ بلکہ ایک قرأت میں بجائے «حَصَبُ» کے «حَطَبْ» ہے۔ ” تم سب عابد و معبود جہنمی ہو اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے “۔ اگر یہ سچے معبود ہوتے کیوں آگ میں جلتے؟ یہاں تو پرستار اور پرستش کئے جانے والے سب ابدی طور پردوزخی ہو گئے وہ الٹی سانس میں چیخیں گے۔ جیسے فرمان ہے آیت «‏‏‏‏فَاَمَّا الَّذِيْنَ شَقُوْا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّشَهِيْقٌ» [11-ھود:106] ‏‏‏‏، ” وہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گی “۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب صرف مشرک جہنم میں رہ جائیں گے انہیں آگ کے صندوقوں میں قید کر دیا جائے گا جن میں آگ کے سریے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کو یہی گمان ہو گا کہ جہنم میں اس کے سوا اور کوئی نہیں پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ [ابن جریر] ‏‏‏‏
5525

«حُسْنَىٰ» سے مراد رحمت وسعادت ہیں۔ دوزخیوں کا اور ان کے عذابوں کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں اور ان کی جزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے یہ لوگ باایمان تھے ان کے نیک اعمال کی وجہ سے سعادت ان کے استقبال کو تیار تھی۔

جیسے فرمان ہے آیت «لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ اُولٰىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ» [10-یونس:26] ‏‏‏‏ ” نیکوں کے لیے نیک اجر ہے اور زیادتی اجر بھی “۔ فرمان ہے آیت «هَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ» [55-الرحمن:60] ‏‏‏‏ ” نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے “۔

ان کے دنیا کے اعمال نیک تھے تو آخرت میں ثواب اور نیک بدلہ ملا، عذاب سے بچے اور رحمت رب سے سرفراز ہوئے۔ یہ جہنم سے دور کر دئیے گئے کہ اس کی آہٹ تک نہیں سنتے نہ دوزخیوں کا جلنا وہ سنتے ہیں۔ پل صراط پردوزخیوں کو زہریلے ناگ ڈستے ہیں اور یہ وہاں ہائے ہائے کرتے ہیں جنتی لوگوں کے کان بھی اس درد ناک آواز سے ناآشنا رہیں گے۔ اتنا ہی نہیں کہ خوف ڈر سے یہ الگ ہو گئے بلکہ ساتھ ہی راحت و آرام بھی حاصل کر لیا۔ من مانی چیزیں موجود۔ دوامی کی راحت بھی حاضر۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک رات اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا میں اور عمر عثمان اور زبیر اور طلحہ اور عبدالرحمٰن انہی لوگوں میں سے ہیں یا سعد کا نام لیا رضی اللہ عنہم۔ اتنے میں نماز کی تکبیر ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ چادر گھیسٹتے آیت «لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا»، پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو گئے۔

اور روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ایسے ہی ہیں۔‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہی لوگ اولیاء اللہ ہیں بجلی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پل صراط سے پار ہو جائیں گے اور کافر وہیں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے۔‏‏‏‏

بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ بزرگان دین ہیں جو اللہ والے تھے شرکت سے بیزار تھے لیکن ان کے بعد لوگوں نے ان کی مرضی کے خلاف ان کی پوجا پاٹ شروع کر دی تھی، عزیر، مسیح، فرشتے، سورج، چاند، مریم، وغیرہ۔
5526

عبداللہ بن زبعری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا تیرا خیال ہے کہ اللہ نے آیت «اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ» [21-الأنبياء:98] ‏‏‏‏ اتاری ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو کیا سورج چاند، فرشتے عزیر، عیسیٰ، سب کہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے؟ اس کے جواب میں آیت «وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ» [43-الزخرف:57] ‏‏‏‏ اور آیت «اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى اُولٰىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ» [21-الأنبياء:101] ‏‏‏‏ نازل ہوئی۔

سیرت ابن اسحاق میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نضر بن حارث آیا اس وقت مسجد میں اور قریشی بھی بہت سارے تھے نضر بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا لیکن وہ لاجوب ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ لَوْ كَانَ هَـٰؤُلَاءِ آلِهَةً مَّا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ» [21-الأنبياء:100-98] ‏‏‏‏ تلاوت فرمائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس سے چلے گئے تو عبداللہ بن زبعری آیا لوگوں نے اس سے کہا آج نضر بن حارث نے باتیں کیں لیکن بری طرح چت ہوئے اور یہ فرماتے ہوئے چلے گے۔

اس نے کہا اگر میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود عزیر کو نصرانی مسیح کو تو کیا یہ سب بھی جہنم میں جلیں گے؟ سب کو یہ جواب بہت پسند آیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی عبادت کرائی وہ عابدوں کے ساتھ جہنم میں ہے یہ بزرگ اپنی عبادتیں نہیں کراتے تھے بلکہ یہ لوگ تو انہیں نہیں شیطان کو پوج رہے ہیں اسی نے انہیں ان کی عبادت کی راہ بتائی ہے
۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے ساتھ ہی قرآنی جواب اس کے بعد ہی آیت «إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ» [21-الأنبياء:101] ‏‏‏‏ میں اترا تو جن نیک لوگوں کی جاہلوں نے پرستش کی تھی وہ اس سے مستثنیٰ ہو گئے۔

چنانچہ قرآن میں ہے آیت «مَن يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَـٰهٌ مِّن دُونِهِ فَذَٰلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ» [21-الأنبياء:29] ‏‏‏‏ یعنی ” ان میں سے جو اپنی معبودیت اوروں سے منوانی چاہے اس کا بدلہ جہنم ہے ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں “۔ اور آیت «وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنكُم مَّلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ» [43-الزخرف:57-60] ‏‏‏‏ اتری کہ ” اس بات کہ سنتے ہی وہ لوگ متعجب ہوگئے اور کہنے لگے ہمارے معبود اچھے یا وہ یہ تو صرف دھینگا مشتی ہے اور یہ لوگ جھگڑالو ہی ہیں وہ ہمارا انعام یافتہ بندہ تھا اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے نمونہ بنایا تھا۔ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین فرشتوں کو کر دیتے “۔

«وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ» [43-الزخرف:61] ‏‏‏‏ ” عیسیٰ (‏‏‏‏علیہ السلام) نشانِ قیامت ہیں ان کے ہاتھ سے جو معجزات صادر ہوئے وہ شبہ والی چیزیں نہیں وہ قیامت کی دلیل ہیں تجھے اس میں کچھ شک نہ کرنا چاہے۔ میری مانتا چلا جا یہی صراط مستقیم ہے “۔

ابن زبعری کی جرات دیکھئیے خطاب اہل مکہ سے ہے اور ان کی ان تصویروں اور پتھروں کے لیے کہا گیا ہے جنہیں وہ سوائے اللہ کے پوجا کرتے تھے نہ کہ عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ پاک نفس کے لیے جو غیر اللہ کی عبادت سے روکتے تھے۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں لفظ «ما» جو یہاں ہے وہ عرب میں ان کے لیے آتا ہے جو بے جان اور بے عقل ہوں۔
5527

یہ ابن زبعری اس کے بعد مسلمان ہوگئے تھے رضی اللہ عنہ۔ یہ بڑے مشہور شاعر تھے۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں کی دل کھول کر دھول اڑائی تھی لیکن مسلمان ہونے کے بعد معذرت کی۔

موت کی گھبراہٹ، اس گھڑی کی گھبراہٹ جبکہ جہنم پر ڈھکن ڈھک دیا جائے گا جب کہ موت کو دوزخ جنت کے درمیان ذبح کر دیا جائے گا۔ غرض کسی اندیشے کا نزول ان پر نہ ہوگا وہ ہر غم و ہراس سے دور ہوں گے، پورے مسرور ہوں گے، خوش ہوں گے اور ناخوشی سے کوسوں الگ ہوں گے۔ فرشتوں کے پرے کے پرے ان سے ملاقاتیں کر رہے ہوں گے اور انہیں ڈھارس دیتے ہوئے کہتے ہوں گے کہ اسی دن کا وعدہ تم سے کیا گیا تھا، اس وقت تم قبروں سے اٹھنے کے دن کے منتظر رہو۔
5528



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.