تفسير ابن كثير



سورۃ المؤمنون

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ[112] قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ[113] قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ[114] أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ[115] فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ[116]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] فرمائے گا تم زمین میں سالوں کی گنتی میں کتنی مدت رہے؟ [112] وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، سو شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔ [113] فرمائے گا تم نہیں رہے مگر تھوڑا ہی، کاش کہ واقعی تم جانتے ہوتے۔ [114] تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟ [115] پس بہت بلند ہے اللہ، جو سچا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، عزت والے عرش کا رب ہے۔ [116]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ تم زمین میں باعتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے؟ [112] وه کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم، گنتی گننے والوں سے بھی پوچھ لیجیئے [113] اللہ تعالیٰ فرمائے گا فی الواقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو اے کاش! تم اسے پہلے ہی سے جان لیتے؟ [114] کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے [115] اللہ تعالیٰ سچا بادشاه ہے وه بڑی بلندی واﻻ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے [116]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (خدا) پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے برس رہے؟ [112] وہ کہیں گے کہ ہم ایک روز یا ایک روز سے بھی کم رہے تھے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیئے [113] (خدا) فرمائے گا کہ (وہاں) تم (بہت ہی) کم رہے۔ کاش تم جانتے ہوتے [114] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بےفائدہ پیدا کیا ہے اور یہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ [115] تو خدا جو سچا بادشاہ ہے (اس کی شان) اس سے اونچی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش بزرگ کا مالک ہے [116]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 112، 113، 114، 115، 116،

مختصر زندگی طویل گناہ ٭٭

بیان ہو رہا ہے کہ دنیا کی تھوڑی سے عمر میں یہ بدکاریوں میں مشغول ہو گئے اگر نیکو کار رہتے تو اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ ان نیکیوں کا بڑا اجر پاتے آج ان سے سوال ہو گا کہ تم دنیا میں کس قدر رہے جواب دیں گے کہ بہت ہی کم ایک دن یا اس سے بھی کم حساب داں لوگوں سے دریافت کر لیا جائے جواب ملے گا کہ اتنی مدت ہو یا زیادہ لیکن واقع میں وہ آخرت کی مدت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اگر تم اسی کو جانتے ہوتے تو اس فانی کو اس جاودانی پر ترجیح نہ دیتے اور برائی کر کے اس تھوڑی سی مدت میں اس قدر اللہ کو ناراض نہ کر دیتے وہ ذرا سا وقت اگر صبر وضبط سے اطاعت الٰہی میں بسر کر دیتے تو آج راج تھا۔ خوشی ہی خوشی تھی۔
5829

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب جنتی دوزخی اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے تو جناب باری عزوجل مومنوں سے پوچھے گا کہ تم دنیا میں کتنی مدت رہے؟ وہ کہیں گے یہی کوئی ایک آدھ دن اللہ فرمائے گا پھر تو بہت ہی اچھے رہے کہ اتنی سی دیر کی نیکیوں کا یہ بدلہ پایا کہ میری رحمت رضا مندی اور جنت حاصل کر لی۔ جہاں ہمیشگی ہے پھر جہنمیوں سے یہ سوال ہو گا وہ بھی اتنی ہی مدت بتائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہاری تجارت بڑی گھاٹے والی ہوئی کہ اتنی سی مدت میں تم نے میری ناراضگی غصہ اور جہنم خرید لیا، جہاں تم ہمیشہ پڑے رہو گے کیا تم لوگ یہ سمجھے ہوئے ہو کہ تم بے کار بے مقصد و ارادہ پیدا کئے گے ہو؟ کوئی حکمت تمہاری پیدائش میں نہیں؟ محض کھیل کے طور پر تمہیں پیدا کر دیا گیا ہے؟ کہ مثل جانوروں کے تم اچھل کودتے پھرو ثواب عذاب کے مستحق ہو یہ گمان غلط ہے تم عبادت کے لیے اللہ کے حکموں کی بجا آوری کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ کیا تم یہ خیال کر کے نچنت ہو گے ہو گئے ہو کہ تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہی نہیں؟ یہ بھی غلط خیال ہے جیسے فرمایا «اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى» [ 75- القيامة: 36 ] ‏‏‏‏ کیا لوگ یہ گماں کرتے ہیں کہ وہ مہمل چھوڑ دئیے جائیں گے اللہ کی بات اس سے بلندوبرتر ہے کہ وہ کوئی عبث کام کرے بے کار بنائے، بگاڑے وہ سچا بادشاہ اس سے پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے وہ بہت بھلا اور عمدہ ہے خوش شکل اور نیک منظر ہے جیسے فرمان ہے زمین میں ہم نے ہرجوڑا عمدہ پیدا کر دیا ہے۔‏‏‏‏
5830

خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین عمر بن العزیر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے آخری خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو! تم بے کار اور عبث پیدا نہیں کئے گئے اور تم مہمل چھوڑ نہیں دیئے گئے یاد رکھو کہ وعدے کا ایک دن ہے جس میں خود اللہ تعالیٰ فیصلے کرنے اور حکم فرمانے کیلئے نازل ہو گا۔ وہ نقصان میں پڑا اس نے خسارہ اٹھایا وہ بے نصیب اور بدبخت ہو گیا، وہ محروم اور خالی ہاتھ رہا، جو اللہ کی رحمت سے دور ہو گیا اور جنت سے روک دیا گیا، جس کی چوڑائی مثل کل زمینوں اور آسمانوں کے ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کل قیامت کے دن عذاب الٰہی سے وہ بچ جائے گا، جس کے دل میں اس دن کا خوف آج ہے اور جو اس فانی دنیا کو اس باقی آخرت پر قربان کر رہا ہے، اس تھوڑے کو اس بہت کے حاصل کرنے کیلئے بے تکان خرچ کر رہا ہے اور اپنے اس خوف کو امن سے بدلنے کے اسباب مہیا کر رہا ہے۔

کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم سے گزشتہ لوگ ہلاک ہوئے، جن کے قائم مقام اب تم ہو۔ اسی طرح تم بھی مٹا دیئے جاؤ گے اور تمہارے بدلے آئندہ آنے والے آئیں گے یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا کہ ساری دنیا سمٹ کر اس خیرالوراثین کے دربار میں حاضری دے گی۔
5831

لوگو خیال تو کرو کہ تم دن رات اپنی موت سے قریب ہو رہے ہو اور اپنے قدموں سے اپنی گور کی طرف جا رہے ہو، تمہارے پھل پک رہے ہیں، تمہاری امیدیں ختم ہو رہی ہیں، تمہاریں عمریں پوری ہو رہی ہیں۔ تمہاری اجل نزدیک آ گئی ہے، تم زمین کے گڑھوں میں دفن کر دیئے جاؤ گے، جہاں نہ کوئی بستر ہو گا، نہ تکیہ، دوست احباب چھوٹ جائیں گے، حساب کتاب شروع ہو جائے گا، اعمال سامنے آ جائیں گے، جو چھوڑ آئے وہ دوسروں کا ہو جائے گا۔ جو آگے بھیج چکے، اسے سامنے پاؤ گے، نیکیوں کے محتاج ہو گے، بدیوں کی سزائیں بھگتو گے۔ اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، اس کی باتیں سامنے آ جائیں اس سے پہلے موت تم کو اچک لے جائے۔ اس سے پہلے جواب دہی کیلئے تیار ہو جاؤ، اتنا کہا تھا کہ رونے کے غلبہ نے آواز بلند کر دی۔ منہ پر چادر کا کونہ ڈال کر رونے لگے اور حاضرین کی بھی آہ و زاری شروع ہو گئی۔
5832

ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک بیمار شخص جسے کوئی جن ستا رہا تھا، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے «اَفَحَسِبْتُمْ» سے سورت کے ختم تک کی آیتیں اس کے کان میں تلاوت فرمائیں وہ اچھا ہو گیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ رضی اللہ عنہما تم نے اس کے کان میں کیا پڑھا تھا؟ آپ رضی اللہ عنہما نے بتایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ آیتیں اس کے کان میں پڑھ کر اسے جلا دیا۔ واللہ ان آیتوں کو اگر کوئی باایمان اور بایقین شخص کسی پہاڑ پر پڑھے تو وہ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائے۔‏‏‏‏ [ابو نعیم فی الحلیة 70/1:مرفوع] ‏‏‏‏

ابونعیم نے روایت کی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر میں بھیجا اور حکم فرمایا کہ ہم صبح شام «اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ» [ 23- المؤمنون: 115 ] ‏‏‏‏ پڑھتے رہیں ہم نے برابر اس کی تلاوت دونوں وقت جاری رکھی۔ الحمدللہ ہم سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے۔ [الدر المنثور للسیوطی،34/5] ‏‏‏‏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کا ڈوبنے سے بچاؤ کشتیوں میں سوار ہونے کے وقت یہ کہنا ہے۔ [طبرانی کبیر:124/12:ضعیف] ‏‏‏‏ «وَمَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ» [ 39-الزمر: 67 ] ‏‏‏‏ «بِسْمِ اللَّـهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ» [ 11- هود: 41 ] ‏‏‏‏۔‏‏‏‏
5833



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.