تفسير ابن كثير



سورۃ الفرقان

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا[61] وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا[62]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بہت برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک روشنی کرنے والا چاند بنایا۔ [61] اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا، اس کے لیے جو چاہے کہ نصیحت حاصل کرے، یا کچھ شکر کرنا چاہے۔ [62]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بابرکت ہے وه جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں آفتاب بنایا اور منور مہتاب بھی [61] اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے واﻻ بنایا۔ اس شخص کی نصیحت کے لیے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا اراده رکھتا ہو [62]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور (خدا) بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں (آفتاب کا نہایت روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا [61] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔ (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکرگزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں) [62]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 61، 62،

اللہ تعالٰی کی رفعت و عظمت ٭٭

اللہ تعالیٰ کی بڑائی، عظمت، رفعت کو دیکھو کہ اس نے آسمان میں برج بنائے۔ اس سے مراد یا تو بڑے بڑے ستارے ہیں یا چوکیداری کے برج ہیں۔ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے اور ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے ستاروں سے مراد بھی یہی برج ہوں۔

اور آیت میں ہے: آسمان دنیا کو ہم نے ستاروں کے ساتھ مزین بنایا۔ سراج سے مراد سورج ہے، جو چمکتا رہتا ہے اور مثل چراغ کے ہے۔ جیسے فرمان ہے «وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا» [78-النبأ:13] ‏‏‏‏ ” اور ہم نے روشن چراغ یعنی سورج بنایا۔ “

اور چاند بنایا جو منور اور روشن ہے، دوسرے نور سے جو سورج کے سوا ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ ” اس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو نور بنایا۔ “ [10-يونس:5] ‏‏‏‏

نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: «اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا» [71-نوح:15-16] ‏‏‏‏ ” کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمان پیدا کیے اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا۔ “

دن رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اس کی قدرت کا نظام ہے۔ یہ جاتا ہے، وہ آتا ہے۔ اس کا جانا اس کا آنا ہے۔ جیسے فرمان ہے: اس نے تمہارے لیے سورج، چاند پے در پے آنے جانے والے بنائے ہیں۔

اور جگہ ہے: رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور جلدی جلدی اسے طلب کرتی آتی ہے۔ نہ سورج چاند سے آگے بڑھ سکے، نہ رات دن سے سبقت لے سکے۔ اسی سے اس کے بندوں کو اس کی عبادتوں کے وقت معلوم ہوتے ہیں۔ رات کا فوت شدہ عمل دن میں پورا کر لیں، دن کا رہ گیا ہوا عمل رات کو ادا کر لیں۔

صحیح حدیث شریف میں ہے: اللہ تعالیٰ رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گنہگار توبہ کر لے۔ [صحیح مسلم:2759] ‏‏‏‏

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک دن ضحیٰ کی نماز میں بڑی دیر لگا دی۔ سوال پر فرمایا کہ رات کا کچھ میرا وظیفہ باقی رہ گیا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے پورا کر لوں یا قضاء کر لوں۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ «خِلْفَةً» کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف یعنی دن روشن، رات تاریک۔ اس میں اجالا، اس میں اندھیرا۔ یہ نورانی اور وہ ظلماتی۔
6092



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.