تفسير ابن كثير



سورۃ آل عمران

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِهَادُ[12] قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ[13]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ان لوگوں سے کہہ دے جنھوں نے کفر کیا کہ تم جلد ہی مغلوب کیے جائو گے اور جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائو گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ [12] یقینا تمھارے لیے ان دو جماعتوں میں عظیم نشانی تھی جو ایک دوسرے کے مقابلے میں آئیں، ایک جماعت اللہ کے راستے میں لڑتی تھی اور دوسری کافر تھی، یہ ان کو آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی مدد کے ساتھ قوت بخشتا ہے، بلاشبہ اس میں آنکھوں والوں کے لیے یقینا بڑی عبرت ہے۔ [13]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کافروں سے کہہ دیجئے! کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے اور جہنم کی طرف جمع کئے جاؤ گے اور وه برا ٹھکانا ہے [12] یقیناً تمہارے لئے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں، ایک جماعت تو اللہ تعالیٰ کی راه میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروه کافروں کا تھا وه انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا دیکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے۔ یقیناً اس میں آنکھوں والوں کے لئے بڑی عبرت ہے [13]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (اے پیغمبر) کافروں سے کہدو کہ تم (دنیا میں بھی) عنقریب مغلوب ہو جاؤ گے اور (آخرت میں) جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ بری جگہ ہے [12] تمہارے لیے دو گروہوں میں جو (جنگ بدر کے دن) آپس میں بھڑ گئے (قدرت خدا کی عظیم الشان) نشانی تھی ایک گروہ (مسلمانوں کا تھا وہ) خدا کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ (کافروں کا تھا وہ) ان کو اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا مشاہدہ کر رہا تھا اور خدا اپنی نصرت سے جس کو چاہتا ہے مدد دیتا ہے جو اہل بصارت ہیں ان کے لیے اس (واقعے) میں بڑی عبرت ہے [13]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 12، 13،

اولین معرکہ حق و باطل ٭٭

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم ) کافروں سے کہہ دیجئیے کہ تم دنیا میں بھی ذلیل و مغلوب کئے جاؤ گے، ہارو گے، ماتحت بنو گے اور قیامت کے دن بھی ہانک کر جہنم میں جمع کئے جاؤ گے جو بد ترین بچھونا ہے۔

سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب بدر کی جنگ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مظفر و منصور واپس ہوئے تو بنوقینقاع کے بازار میں یہودیوں کو جمع کیا اور فرمایا: اے یہودیو! اس سے پہلے کہ قریش کی طرح تمہیں بھی ذلت و پستی دیکھنا پڑے اسلام قبول کر لو، تو اس سرکش جماعت نے جواب دیا کہ چند قریشیوں کو جو فنونِ جنگ سے ناآشنا تھے، آپ نے انہیں ہرا لیا اور دماغ میں غرور سما گیا، اگر ہم سے لڑائی ہوئی تو ہم بتا دیں گے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں، آپ کو ابھی تک ہم سے پالا ہی نہیں پڑا۔ اس پر یہ آیت اتری۔ [سیرۃ ابن ھشام:2/427:مرسل ضعیف] ‏‏‏‏

اور فرمایا گیا فتح بدر نے ظاہر کر دیا ہے کہ اللہ اپنے سچے اچھے اور پسندیدہ دین کو اور اس دین والوں کو عزت و حرمت عطا فرمانے والا ہے، وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کی اطاعت گزار امت کا خود مددگار ہے۔ وہ اپنی باتوں کو ظاہر اور غالب کرنے والا ہے۔ دو جماعتیں لڑائی میں گھتم گتھا ہو گئی تھیں، ایک صحابہ کرام کی اور دوسری مشرکین قریش کی، یہ واقعہ جنگ بدر کا ہے، اس دن مشرکین پر اس قدر رعب غالب آیا اور اللہ نے اپنے بندوں کی اس طرح مدد کی گو مسلمان گنتی میں مشرکین سے کہیں کم تھے لیکن مشرکوں کو اپنے سے دُگنے نظر آتے تھے،
1025

مشرکوں نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی جاسوسی کیلئے عمیر بن سعد کو بھیجا تھا جس نے آ کر اطلاع دی تھی کہ تین سو ہیں، کچھ کم یا زائد ہوں اور واقعہ بھی یہی تھا کہ صرف تین سو دَ س اور کچھ تھے لیکن لڑائی کے شروع ہوتے ہی اللہ عزوجل نے اپنے خاص اور چیدہ فرشتے ایک ہزار بھیجے۔ ایک معنی تو یہ ہیں، دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ کافر ہم سے دوچند ہیں، پھر بھی اللہ عزوجل نے انہی کی مدد کی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بدری صحابہ تین سو تیرہ تھے اور مشرکین چھ سو سولہ تھے۔ لیکن تواریخ کی کتابوں میں مشرکین کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تک بیان کی گئی ہے، ہو سکتا ہے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا قرآن کے الفاظ سے یہ استدلال ہو کہ ابن الحجاج قبلیہ کا جو سیاہ فام غلام پکڑا ہوا آیا تھا اس سے جب حضور نے پوچھا کہ قریش کی تعداد کتنی ہے؟ اس نے کہا بہت ہیں، آپ نے پھر پوچھا اچھا روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں، اس نے کہا ایک دن نو دوسرے دن دس، آپ نے فرمایا بس تو ان کی گنتی نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے۔ [سیرۃ ابن ھشام:2/195:مرسل ضعیف] ‏‏‏‏ پس مشرکین مسلمانوں سے تین گنے تھے «واللہ اعلم»
1026

لیکن یہ یاد رہے کہ عرب کہہ دیا کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک ہزار تو ہیں لیکن مجھے ضرورت ایسے ہی دوگنا کی ہے اس سے مراد ان کی تین ہزار ہوتی ہے۔ اب کوئی مشکل باقی نہ رہی، لیکن ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَاِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّ يُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا» [8۔ الانفال:44] ‏‏‏‏ یعنی جب آمنے سامنے آ گئے تو اللہ نے انہیں تمہاری نگاہوں کے سامنے کم کر کے دکھایا اور تمہیں ان کی نگاہوں میں زیادہ کر کے دکھایا تاکہ جو کام کرنے کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا وہ ہو جائے۔

پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تعداد سے بھی کم نظر آئے اور مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ بلکہ دُگنے نظر آئے۔ تو دونوں آیتوں میں تطبیق کیا ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول اور تھا اور اس کا وقت اور تھا۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر والے دن ہمیں مشرکین کچھ زیادہ نہیں لگے، ہم نے غور سے دیکھا پھر بھی یہی معلوم ہوا کہ ہم سے ان کی گنتی زیادہ نہیں۔

دوسری روایت میں ہے کہ مشرکین کی تعداد اس قدر کم معلوم ہوئی کہ میں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر ہوں گے، اس نے کہا نہیں نہیں سو ہوں گے، جب ان میں سے ایک شخص پکڑا گیا تو ہم نے اس سے مشرکین کی گنتی پوچھی، اس نے کہا ایک ہزار ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:6/236] ‏‏‏‏
1027

اب جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے تو مسلمانوں کو یہ معلوم ہونے لگا کہ مشرکین ہم سے دوگنے ہیں۔ یہ اس لیے کہ انہیں اپنی کمزوری کا یقین ہو جائے اور یہ اللہ پر پورا بھروسہ کر لیں اور تمام تر توجہ اللہ کی جانب پھیر لیں اور اپنے رب عزوجل سے اعانت اور امداد کی دعائیں کرنے لگیں، ٹھیک اسی طرح مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد دوگنی معلوم ہونے لگی تاکہ ان کے دِلوں میں رعب اور خوف بیٹھ جائے اور گھبراہٹ اور پریشانی بڑھ جائے، پھر جب دونوں بھڑ گئے اور لڑائی ہونے لگی تو ہر فریق دوسرے کو اپنی نسبت کم نظر آنے لگا تاکہ ایک دِل کھول کر حوصلہ نکالے اور اللہ تعالیٰ حق و باطل کا صاف فیصلہ کر دے، ایمان و کفر و طغیان پر غالب آ جائے۔ مومنوں کو عزت اور کافروں کو ذلت مل جائے۔

جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ» [3-آل عمران:123] ‏‏‏‏ یعنی البتہ اللہ تعالیٰ نے بدر والے دن تمہاری مدد کی حالانکہ تم اس وقت کمزور تھے۔

اسی لیے یہاں بھی فرمایا اللہ جسے چاہے اپنی مدد سے طاقتور بنا دے، پھر فرماتا ہے «وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ» [3-آل عمران:13] ‏‏‏‏ اس میں عبرت و نصیحت ہے اس شخص کیلئے جو آنکھوں والا ہو جس کا دماغ صحیح و سالم ہو، وہ اللہ کے احکام کی بجا آوری میں لگ جائے گا اور سمجھ لے گا کہ اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کی اس جہان میں بھی مدد کرتا ہے اور قیامت کے دن بھی ان کا بچاؤ کرے گا۔
1028



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.