تفسير ابن كثير



سورۃ النمل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ[48] قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ[49] وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ[50] فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ[51] فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ[52] وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ[53]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس شہر میں نو(۹) شخص تھے، جو اس سرزمین میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔ [48] انھوں نے کہا آپس میں اللہ کی قسم کھائو کہ ہم ضرور ہی اس پر اور اس کے گھر والوں پر رات حملہ کریں گے، پھر ضرور ہی اس کے وارث سے کہہ دیں گے ہم اس کے گھر والوں کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور بلاشبہ ہم ضرور سچے ہیں۔ [49] اور انھوں نے ایک چال چلی اور ہم نے بھی ایک چال چلی اور وہ سوچتے تک نہ تھے۔ [50] پس دیکھ ان کی چال کا انجام کیسا ہوا کہ ہم نے انھیں اور ان کی قوم، سب کو ہلاک کر ڈالا۔ [51] تو یہ ہیں ان کے گھر گرے ہوئے، اس کے باعث جو انھوں نے ظلم کیا۔ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا ایک نشانی ہے جو جانتے ہیں۔ [52] اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور بچتے رہے تھے۔ [53]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس شہر میں نو سردار تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے رہتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے [48] انہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کھا کر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں پر ہم چھاپہ ماریں گے، اور اس کے وارﺛوں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں [49] انہوں نے مکر (خفیہ تدبیر) کیا اور ہم نے بھی اور وه اسے سمجھتے ہی نہ تھے [50] (اب) دیکھ لے ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا؟ کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو غارت کردیا [51] یہ ہیں ان کے مکانات جو ان کے ﻇلم کی وجہ سے اجڑے پڑے ہیں، جو لوگ علم رکھتے ہیں ان کے لیےاس میں بڑی نشانی ہے [52] ہم نے ان کو جو ایمان ﻻئے تھے اور پرہیزگار تھے بال بال بچالیا [53]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور شہر میں نو شخص تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے [48] کہنے لگے کہ خدا کی قسم کھاؤ کہ ہم رات کو اس پر اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے پھر اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم تو صالح کے گھر والوں کے موقع ہلاکت پر گئے ہی نہیں اور ہم سچ کہتے ہیں [49] اور وہ ایک چال چلے اور ان کو کچھ خبر نہ ہوئی [50] تو دیکھ لو ان کی چال کا کیسا انجام ہوا۔ ہم نے ان کو اور ان کی قوم سب کو ہلاک کر ڈالا [51] اب یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں۔ جو لوگ دانش رکھتے ہیں، ان کے لئے اس میں نشانی ہے [52] اور جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے تھے ان کو ہم نے نجات دی [53]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 48، 49، 50، 51، 52، 53،

اونٹنی کو مار ڈالا ٭٭

ثمود کے شہر میں نوفسادی شخص تھے جن کی طبعیت میں اصلاح تھی ہی نہیں یہی ان کے رؤسا اور سردار تھے انہی کے مشورے اور حکم سے اونٹنی کو مار ڈالا گیا تھا ان کے نام یہ ہیں دعمی، دعیم، ھرما، ھریم، داب، صواب، مسطع، قدار بن سالف یہی آخری وہ شخص ہے جس نے اپنے ہاتھ سے اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں۔ جس کا بیان آیت «‏‏‏‏فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ» [54-القمر:29] ‏‏‏‏ اور آیت «‏‏‏‏إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا * فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّـهِ نَاقَةَ اللَّـهِ وَسُقْيَاهَا * فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا» ‏‏‏‏ [91-الشمس:14-12] ‏‏‏‏ میں ہے۔

یہی وہ لوگ تھے جو درہم کے سکے کو تھوڑا ساکتر لیتے تھے اور اسے چلاتے تھے۔ سکے کو کاٹنا بھی ایک طرح کا فساد ہے چنانچہ ابوداؤد وغیرہ میں حدیث ہے جس میں بلاضرورت سکے کو جو مسلمانوں میں رائج ہو کاٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے [سنن ابوداود:3449،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

الغرض ان کا یہ فساد بھی تھا اور دیگر فساد بھی بہت سارے تھے۔ اس ناپاک گروہ نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ آج رات کو صالح علیہ السلام کو اور اس کے گھرانے کو قتل کر ڈالو اس پر سب نے حلف اٹھائے اور مضبوط عہد و پیمان کئے۔ لیکن یہ لوگ صالح علیہ السلام تک پہنچیں اس سے پہلے عذاب الٰہی ان تک پہنچ گیا اور ان کا ستیاناس کر دیا۔

اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی اور ان سب سرداروں کے سر پھوٹ گئے سارے ہی ایک ساتھ مرگئے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے خصوصا جب انہوں نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کیا۔ اور دیکھا کہ کوئی عذاب الٰہی نہیں آیا تو اب نبی اللہ علیہ السلام کے قتل پر آمادہ ہوئے۔ مشورے کئے کہ چپ چاپ اچانک اسے اور اس کے بال بچوں اور اس کے والی وارثوں کو ہلاک کر دو اور قوم سے کہہ دو کہ ہمیں کیا خبر؟ اگر صالح نبی علیہ السلام ہے تو ہمارے ہاتھ لگنے کا نہیں ورنہ اسے بھی اس کی اونٹنی کے ساتھ سلادو اس ارادے سے چلے راہ ہی میں تھے جو فرشتے نے پتھر سے ان سب کے دماغ پاش پاش کر دئیے۔

ان کے مشوروں میں جو اور جماعت شریک تھی انہوں نے جب دیکھا کہ انہیں گئے ہوئے عرصہ ہو گیا اور واپس نہیں آئے تو یہ خبر لینے چلے دیکھا کہ سب کے سر پھٹے ہوئے ہیں بھیجے نکلے پڑے ہیں اور سب مردہ ہیں۔ انہوں نے صالح علیہ السلام پر ان کے قتل کی تہمت رکھی اور انہیں مار ڈالنے کے لیے نکلے لیکن ان کی قوم ہتھیار لگا کر آ گئی اور کہنے لگے دیکھو اس نے تم سے کہا ہے کہ تین دن میں اللہ کا عذاب تم پر آئے گا تم یہ تین دن گذرنے دو۔ اگر یہ سچا ہے تو اس کے قتل سے اللہ کو اور ناراض کرو گے اور زیادہ سخت عذاب آئیں گے اور اگر یہ جھوٹا ہے تو پھر تمہارے ہاتھ سے بچ کر کہاں جائے گا؟ چنانچہ وہ لوگ چلے گئے۔
6453

فی الواقع ان سے نبی اللہ صالح علیہ السلام نے صاف فرما دیا تھا کہ تم نے اللہ کی اونٹنی کو قتل کیا ہے تو تم اب تین دن تک مزے اڑالو پھر اللہ کا سچا وعدہ ہو کر رہے گا۔ یہ لوگ صالح علیہ السلام کی زبانی یہ سب سن کر کہنے لگے یہ تو اتنی مدت سے کہہ رہا ہے آؤ ہم آج ہی اس سے فارغ ہو جائیں جس پتھر سے اونٹنی نکلی تھی اسی پہاڑی پر صالح علیہ السلام کی ایک مسجد تھی جہاں آپ نماز پڑھاکرتے تھے انہوں نے مشورہ کیا کہ جب وہ نماز کو آئے اسی وقت راہ میں ہی اس کا کام تمام کر دو۔

جب پہاڑی پر چڑھنے لگے تو دیکھا کہ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی آ رہی ہے اس سے بچنے کے لیے ایک غار میں گھس گئے چٹان آ کر غار کے منہ میں اس طرح ٹھہر گیا کہ غار کامنہ بالکل بند ہو گیا۔ سب کے سب ہلاک ہو گئے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کہاں گئے؟ انہیں یہاں عذاب آیا وہاں باقی والے وہیں ہلاک کر دئیے گئے نہ ان کی خبر انہیں ہوئی اور نہ ان کی انہیں۔
6454

صالح علیہ السلام اور باایمان لوگوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور اپنی جانیں اللہ کے عذابوں میں گنوادیں۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے ان کی چال بازی کا مزہ انہیں چکھا دیا۔ اور انہیں اس سے ذرا پہلے بھی مطلق علم نہ ہو سکا۔ انجام کار ان کی فریب بازیوں کا یہ ہوا کہ سب کے سب تباہ و برباد ہوئے۔ یہ ہیں ان کی بستیاں جو سنسان پڑی ہیں ان کے ظلم کی وجہ سے یہ ہلاک ہو گئے ان کے بارونق شہر تباہ کر دئے گئے ذی علم لوگ ان نشانوں سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم نے ایماندار متقیوں کو بال بال بچا لیا۔
6455



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.