تفسير ابن كثير



سورۃ النمل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ[91] وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ[92] وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ[93]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت دی اور اسی کے لیے ہر چیز ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوجاؤں۔ [91] اور یہ کہ میں قرآن پڑھوں، پھر جو سیدھے راستے پر آجائے تو وہ اپنے ہی لیے راستے پر آتا ہے اور جو گمراہ ہو تو کہہ دے کہ میں تو بس ڈرانے والوں میں سے ہوں۔ [92] اور کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے، عنقریب وہ تمھیں اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم انھیں پہچان لو گے اور تیرا رب ہرگز اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔ [93]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے پروردگار کی عبادت کرتا رہوں جس نے اسے حرمت واﻻ بنایا ہے، جس کی ملکیت ہر چیز ہے اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں میں ہو جاؤں [91] اور میں قرآن کی تلاوت کرتا رہوں، جو راه راست پر آجائے وه اپنے نفع کے لیے راه راست پر آئے گا۔ اور جو بہک جائے تو کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف ہوشیار کرنے والوں میں سے ہوں [92] کہہ دیجئے، کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کو سزاوار ہیں وه عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا جنہیں تم (خود) پہچان لو گے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے آپ کا رب غافل نہیں [93]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (کہہ دو) کہ مجھ کو یہی ارشاد ہوا ہے کہ اس شہر (مکہ) کے مالک کی عبادت کروں جس نے اس کو محترم (اور مقام ادب) بنایا ہے اور سب چیز اُسی کی ہے اور یہ بھی حکم ہوا ہے کہ اس کا حکم بردار رہوں [91] اور یہ بھی کہ قرآن پڑھا کروں۔ تو جو شخص راہ راست اختیار کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے اختیار کرتا ہے۔ اور جو گمراہ رہتا ہے تو کہہ دو کہ میں تو صرف نصیحت کرنے والا ہوں [92] اور کہو کہ خدا کا شکر ہے۔ وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم اُن کو پہچان لو گے۔ اور جو کام تم کرتے ہو تمہارا پروردگار اُن سے بےخبر نہیں ہے [93]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 91، 92، 93،

اللہ تعالٰی کا حکم ، اعلان ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ میں اس شہر مکہ کے رب کی عبادت کا اور اس کی فرمانبرداری کا مامور ہوں۔ جیسے ارشاد ہے «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّـهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ» [10-يونس:104] ‏‏‏‏

کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین میں شک ہے تو ہواکرے میں توجن کی تم عبادت کر رہے ہو ان کی عبادت ہرگز نہیں کرونگا۔ میں اسی اللہ کا عابد ہوں جو تمہاری زندگی موت کا مالک ہے۔ “


یہاں مکہ شریف کی طرف ربوبیت کی اضافت صرف بزرگی اور شرافت کے اظہار کے لیے ہے جیسے فرمایا «فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ * الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ» ‏‏‏‏ [106-قريش:4-3] ‏‏‏‏ ” انہیں چاہیئے کہ اس شہر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں اوروں کی بھوک کے وقت آسودہ اور اوروں کے خوف کے وقت بےخوف کررکھا ہے۔ “ یہاں فرمایا کہ اس شہر کو حرمت وعزت والا اس نے بنایا ہے۔

جیسے بخاری و مسلم میں ہے کہ رضی اللہ عنہ قیامت آ جائے نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں نہ اس کا شکار خوف زدہ کیا جائے نہ اس میں گری پڑی کسی کی چیز اٹھائی جائے ہاں جو پہچان کر مالک کو پہنچانا چاہے اس کے لیے جائز ہے۔ اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے۔ [صحیح بخاری:1349] ‏‏‏‏

یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مروی ہے جیسے کہ احکام کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
6520

پھر اس خاص چیز کی ملکیت ثابت کر کے اپنی عام ملکیت کا ذکر فرماتا ہے کہ ہرچیز کا رب اور مالک وہی ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی مالک نہ معبود۔ اور مجھے یہ حکم بھی ملا ہے کہ میں موحد مخلص مطیع اور فرمانبردار ہو کر رہوں۔ اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا کہ میں لوگوں کو اللہ کا کلام پڑھ کر سناؤں۔ جیسے فرمان ہے «کہذَٰلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ» [3-آل عمران:58] ‏‏‏‏ ” ہم یہ آیتیں اور یہ حکمت والا ذکر تیرے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔ “

اور آیت «نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ» ‏‏‏‏ [28-القصص:3] ‏‏‏‏ میں ہے ” ہم تجھے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ سناتے ہیں۔ “

مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کامبلغ ہوں میں تمہیں جگا رہا ہوں۔ تمہیں ڈرا رہا ہوں۔ اگر میری مان کر راہ راست پر آؤ گے تو اپنا بھلاکرو گے۔ اور اگر میری نہ مانی تو میں اپنے تبلیغ کے فرض کو ادا کر کے سبکدوش ہو گیا ہوں۔

اگلے رسولوں نے بھی یہی کیا تھا اللہ کا کلام پہنچاکر اپنا دامن پاک کر لیا۔ جیسے فرمان ہے «وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ» [13-الرعد:40] ‏‏‏‏ ” تجھ پر صرف پہنچادینا ہے حساب ہمارے ذمہ ہے۔ “

اور فرمایا «إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ» ‏‏‏‏ [11-هود:12] ‏‏‏‏ ” تو صرف ڈرا دینے والا ہے اور ہرچیز پر وکیل اللہ ہی ہے۔ “

اللہ کے لیے تعریف ہے جو بندوں کی بیخبری میں انہیں عذاب نہیں کرتا بلکہ پہلے اپنا پیغام پہنچاتا ہے اپنی حجت تمام کرتا ہے بھلا برا سمجھا دیتا ہے۔ ہم تمہیں ایسی آیتیں دکھائیں گے کہ تم خود قائل ہو جاؤ۔

جیسے فرمایا آیت «سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ يَكْ فِبِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ» [41-فصلت:53] ‏‏‏‏ ” یعنی ہم انہیں خود ان کے نفسوں میں اور ان کے اردگرد ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ جن سے ان پر حق ظاہر ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں بلکہ اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دیکھو لوگو! اللہ کو کسی چیز سے اپنے عمل سے غافل نہ جاننا۔ وہ ایک ایک مچھر سے ایک ایک پتنگے سے اور ایک ایک ذرے سے باخبر ہے۔
6521

عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اگر وہ غافل ہوتا تو انسان کے قدموں کے نشان سے جنہیں ہوا مٹادیتی ہے غفلت کر جاتا لیکن وہ ان نشانات کا بھی حافظ ہے اور عالم ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے تھے جو یا تو آپ کے ہیں یا کسی اور کے۔

«اذا ماخلوت الدھر یوما فلا تقل» * «‏‏‏‏خلوت ولکن قل علی رقیب» ‏‏‏‏ یعنی جب تو کسی وقت بھی خلوت اور تنہائی میں ہو تو اپنے آپ کو تنہا اور اکیلا نہ سمجھنا بلکہ اپنے اللہ کو وہاں حاضر ناظر جاننا۔ وہ ایک ساعت بھی کسی سے غافل نہیں نہ کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے۔ اللہ کے۔

فضل و کرم سے سورۃ النمل کی تفسیر ختم ہوئی۔
6522



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.