تفسير ابن كثير



سورۃ القصص

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ[56] وَقَالُوا إِنْ نَتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ[57]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔ [56] اور انھوں نے کہا اگر ہم تیرے ہمراہ اس ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ اور کیا ہم نے انھیں ایک باامن حرم میں جگہ نہیں دی؟ جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں، ہماری طرف سے روزی کے لیے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔ [57]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے [56] کہنے لگے اگر ہم آپ کے ساتھ ہوکر ہدایت کے تابع دار بن جائیں تو ہم تو اپنے ملک سے اچک لیے جائیں، کیا ہم نے انہیں امن وامان اور حرمت والے حرم میں جگہ نہیں دی؟ جہاں تمام چیزوں کے پھل کِھچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس بطور رزق کے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر کچھ نہیں جانتے [57]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (اے محمدﷺ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانیوالوں کو خوب جانتا ہے [56] اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اُچک لئے جائیں۔ کیا ہم نے اُن کو حرم میں جو امن کا مقام ہے جگہ نہیں دی۔ جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائے جاتے ہیں (اور یہ) رزق ہماری طرف سے ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے [57]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 56، 57،

ہدایت صرف اللہ کے ذمہ ہے ٭٭

” اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا ہدایت قبول کرنا تمہارے قبضے کی چیز نہیں۔ آپ پر تو صرف پیغام اللہ کے پہنچادینے کا فریضہ ہے۔ ہدایت کا مالک اللہ ہے وہ اپنی حکمت کے ساتھ جسے چاہے قبول ہدایت کی توفیق بخشتا ہے “۔

جیسے فرمان ہے آیت «لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ» [2-البقرة:272] ‏‏‏‏ ” تیرے ذمہ ان کی ہدایت نہیں وہ چاہے تو ہدایت بخشے “۔

اور آیت میں ہے «وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ» [12-یوسف:103] ‏‏‏‏ ” گو تو ہر چند طمع کرے لیکن ان میں سے اکثر ایماندار نہیں ہوتے “ کہ یہ اللہ کے ہی علم میں ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے؟ اور مستحق ضلالت کون ہے؟

بخاری و مسلم میں ہے کہ یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے بارے میں اتری جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت طرف دار تھا اور ہر موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیتا تھا۔ اور دل سے محبت کرتا تھا لیکن یہ محبت بوجہ رشتہ داری کے طبعی تھی شرعاً نہ تھی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی اور ایمان لانے کی رغبت دلائی لیکن تقدیر کا لکھا اور اللہ کا چاہا غالب آگیا یہ ہاتھوں میں سے پھسل گیا اور اپنے کفر پر اڑا رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے انتقال پر اس کے پاس آئے۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کہو میں اس کی وجہ سے اللہ کے ہاں تیرا سفارشی بن جاؤنگا ۔ ابوجہل اور عبداللہ کہنے لگے ابوطالب کیا تو اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جائے گا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھاتے اور وہ دونوں اسے روکتے یہاں تک کہ آخر کلمہ اس کی زبان سے یہی نکلتا کہ میں یہ کلمہ نہیں پڑھتا اور میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہتر میں تیرے لیے رب سے استغفار کرتا رہونگا یہ اور بات ہے کہ میں روک دیا جاؤں اللہ مجھے منع فرما دے ۔ لیکن اسی وقت آیت اتری کہ «‏‏‏‏مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ» [9-التوبة:113] ‏‏‏‏ یعنی ” نبی کو اور مومن کو ہرگز یہ بات سزاوار نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے استغفار کریں گو وہ ان کے نزدیکی قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں “ اور اسی ابوطالب کے بارے میں آیت «‏‏‏‏اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ» ‏‏‏‏ [28-القصص:56] ‏‏‏‏ بھی نازل ہوئی ۔ [صحیح بخاری:3884] ‏‏‏‏
6609

ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ابوطالب کے مرض الموت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ چجا «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کہہ لو میں اس کی گواہی قیامت کے دن دے دونگا ، تو اس نے کہا اگر مجھے اپنے خاندان قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو اس نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے یہ کہہ لیا تو میں اسے کہہ کر تیری آنکھوں کو ٹھنڈی کر دیتا مگر پھر بھی اسے تیری خوشی کے لیے کہتا ہوں۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ [صحیح مسلم:25] ‏‏‏‏

دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کلمہ پڑھنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میرے بھتیجے میں تو اپنے بڑوں کی روش پر ہوں۔ اور اسی بات پر اس کی موت ہوئی کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہے۔
6610

قیصر کا قاصد جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور قیصر کا خط خدمت نبوی میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں رکھ کر فرمایا: تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے کہا تیرج قبیلے کا آدمی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا قصد ہے کہ تو اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے دین پر آ جائے؟ اس نے جواب دیا کہ میں جس قوم کا قاصد ہوں جب تک ان کے پیغام کا جواب انہیں نہ پہنچا دوں ان کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھ کر یہی آیت پڑھی ۔ [مسند احمد:441/3:ضعیف] ‏‏‏‏

مشرکین اپنے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے تھے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کو مان لیں تو ہمیں ڈر لگتا ہے کہ اس دین کے مخالف جو ہمارے چاروں طرف ہیں اور تعداد میں مال میں ہم سے زیادہ ہیں۔ وہ ہمارے دشمن بن جائیں گے اور ہمیں تکلیفیں پہنچائیں گی اور ہمیں برباد کر دیں گے۔

اللہ فرماتا ہے کہ ” یہ حیلہ بھی ان کا غلط ہے اللہ نے انہیں حرم محترم میں رکھا ہے جہاں شروع دنیا سے اب تک امن وامان رہا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حالت کفر میں تو یہاں امن سے رہیں اور جب اللہ کے سچے دین کو قبول کریں تو امن اٹھ جائے؟“

یہی تو وہ شہر ہے کہ طائف وغیرہ مختلف مقامات سے پھل فروٹ سامان اسباب مال تجارت وغیرہ کی آمد و رفت بکثرت رہتی ہے۔ تمام چیزیں یہاں کھنچی چلی آتی ہیں اور ہم انہیں بیٹھے بٹھائے روزیاں پہنچا رہے ہیں لیکن ان میں اکثر بے علم ہیں۔ اسی لیے ایسے رکیک حیلے اور بے جا عذر پیش کرتے ہیں مروی ہے کہ یہ کہنے والاحارث بن عامر بن نوفل تھا۔
6611



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.