تفسير ابن كثير



سورۃ القصص

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ مَنْ جَاءَ بِالْهُدَى وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ[85] وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِلْكَافِرِينَ[86]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیا ہے وہ ضرور تجھے ایک عظیم الشان لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لانے والا ہے۔ کہہ میرا رب اسے زیادہ جاننے والا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے۔ [85] اور تو امید نہ رکھتا تھا کہ تیر ی طرف کتاب نازل کی جائے گی مگرتیرے رب کی طرف سے رحمت کی وجہ سے (یہ نازل ہوئی) سو تو ہرگز کافروں کا مددگار نہ بن۔ [86]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وه آپ کو دوباره پہلی جگہ ﻻنے واﻻ ہے، کہہ دیجئے! کہ میرا رب اسے بھی بخوبی جانتا ہے جو ہدایت ﻻیا ہے اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے [85] آپ کو تو کبھی اس کا خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی جائے گی لیکن یہ آپ کے رب کی مہربانی سے اترا۔ اب آپ کو ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہیئے [86]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (اے پیغمبر) جس (خدا) نے تم پر قرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے وہ تمہیں بازگشت کی جگہ لوٹا دے گا۔ کہہ دو کہ میرا پروردگار اس شخص کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت لےکر آیا اور (اس کو بھی) جو صریح گمراہی میں ہے [85] اور تمہیں اُمید نہ تھی کہ تم پر کتاب نازل کی جائے گی۔ مگر تمہارے پروردگار کی مہربانی سے (نازل ہوئی) تو تم ہرگز کافروں کے مددگار نہ ہونا [86]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 85، 86،

جو کرو گے سو بھرو گے ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم فرماتا ہے کہ رسالت کی تبلیغ کرتے رہیں لوگوں کو کلام اللہ سناتے رہیں اللہ تعالیٰ آپ کو قیامت کی طرف واپس لے جانے والا ہے اور وہاں نبوت کی بابت پرستش ہو گی۔ جیسے فرمان ہے «فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ» [7-الأعراف:6] ‏‏‏‏ یعنی ” امتوں سے اور رسولوں سے سب سے ہم دریافت فرمائیں گے “۔

اور آیت میں ہے «يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّـهُ الرُّ‌سُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ» [5-المائدة:109] ‏‏‏‏ ” رسولوں کو جمع کر کے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا؟ “

اور آیت میں ہے «وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ» [39-الزمر:69] ‏‏‏‏ ” نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا “۔ «مَعَادٍ» سے مراد جنت بھی ہو سکتی ہے موت بھی ہو سکتی ہے۔ دوبارہ کی زندگی بھی ہو سکتی ہے کہ دوبارہ پیدا ہوں اور داخل جنت ہوں۔ صحیح بخاری میں ہے اس سے مراد مکہ ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مکہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش تھی۔
6646

ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے ابھی جحفہ ہی میں تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں مکے کا شوق پیدا ہوا پس یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مکے پہنچائے جائیں گے۔

اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہو حالانکہ پوری سورت مکی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے شاید اس کہنے والے کی غرض اس سے بھی قیامت ہے۔ اس لیے کہ بیت المقدس ہی محشر زمین ہے۔

ان تمام اقوال میں جمع کی صورت یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکے کی طرف لوٹنے سے اس کی تفسیر کی ہے جو فتح مکہ سے پوری ہوئی۔ اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے پورا ہونے کی ایک زبردست علامت تھی جیسے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے سورۃ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ‌ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ» [110-النصر:1] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ جس کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی موافقت کی تھی۔ اور فرمایا تھا کہ تو جو جانتا ہے وہی میں بھی جانتا ہوں۔‏‏‏‏ یہی وجہ ہے کہ انہی سے اس آیت کی تفسیر میں جہاں مکہ مروی ہے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال بھی مروی ہے اور کبھی قیامت سے تفسیر کی کیونکہ موت کے بعد قیامت ہے اور کبھی جنت سے تفسیر کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹھکانا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ رسالت کا بدل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن و انس کو اللہ کے دین کی دعوت دی اور آپ تمام مخلوق سے زیادہ کلام زیادہ فصیح اور زیادہ افضل تھے۔
6647

پھر فرمایا کہ ” اپنے مخالفین سے اور جھٹلانے والوں سے کہہ دو کہ ہم میں سے ہدایت والوں کو اور گمراہی والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ تم دیکھ لو گے کہ کس کا انجام بہتر ہوتا ہے؟ اور دنیا اور آخرت میں بہتری اور بھلائی کس کے حصے میں آتی ہے؟“

پھر اپنی ایک اور زبردست نعمت بیان فرماتا ہے کہ ” وحی اترنے سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل ہوگی۔ یہ تو تجھ پر اور تمام مخلوق پر رب کی رحمت ہوئی کہ اس نے تجھ پر اپنی پاک اور افضل کتاب نازل فرمائی۔ اب تمہیں ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہیئے بلکہ ان سے الگ رہنا چاہیئے۔ ان سے بیزاری ظاہر کردینی چاہیئے اور ان سے مخالفت کا اعلان کر دینا چاہیئے “۔
6648



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.