تفسير ابن كثير



سورۃ العنكبوت

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ[28] أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ[29] قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ[30]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور لوط کو (بھیجا) جب اس نے اپنی قوم سے کہا بے شک تم یقینا اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے جہانوں میں سے کسی نے نہیں کی۔ [28] کیا بے شک تم واقعی مردوں کے پاس آتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو؟ تو اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھوں نے کہا ہم پر اللہ کا عذاب لے آ، اگر تو سچوں سے ہے۔ [29] اس نے کہا اے میرے رب! ان مفسد لوگوں کے خلاف میری مدد فرما۔ [30]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا بھی ذکر کرو جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم تو اس بدکاری پر اتر آئے ہو جسے تم سے پہلے دنیا بھر میں سے کسی نے نہیں کیا [28] کیا تم مردوں کے پاس بدفعلی کے لیے آتے ہو اور راستے بند کرتے ہو اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائیوں کا کام کرتے ہو؟ اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا کہ بس جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آ [29] حضرت لوط (علیہ السلام) نے دعا کی کہ پروردگار! اس مفسد قوم پر میری مدد فرما [30]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور لوط (کو یاد کرو) جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم (عجب) بےحیائی کے مرتکب ہوتے ہو۔ تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا [28] تم کیوں (لذت کے ارادے سے) لونڈوں کی طرف مائل ہوتے اور (مسافروں کی) رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو۔ تو اُن کی قوم کے لوگ جواب میں بولے تو یہ بولے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ [29] لوط نے کہا کہ اے میرے پروردگار ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں مجھے نصرت عنایت فرما [30]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 28، 29، 30،

سب سے خراب عادت ٭٭



لوطیوں کی مشہور بدکرداری سے لوط انہیں روکتے ہیں کہ تم جیسی خباثت تم سے پہلے تو کوئی جانتاہی نہ تھا۔ کفر، تکذیب رسول، اللہ کے حکم کی مخالفت تو خیر اور بھی کرتے رہے مگر مردوں سے حاجت روائی تو کسی نے بھی نہیں کی۔ دوسری بد خصلت ان میں یہ بھی تھی کہ راستے روکتے تھے، ڈاکے ڈالتے تھے، قتل وفساد کرتے تھے مال لوٹ لیتے تھے، مجلسوں میں علی الاعلان بری باتیں اور لغو حرکتیں کرتے تھے۔ کوئی کسی کو نہیں روکتا تھا یہاں تک کہ بعض کا قول ہے کہ وہ لواطت بھی علی الاعلان کرتے تھے۔

گویا سوسائٹی کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا ہوائیں نکال کر ہنستے تھے، مینڈھے لڑواتے، مرغ لڑواتے اور بدترین برائیاں کرتے تھے اور علی الاعلان مزے لے لے کر گناہ کرتے تھے۔

حدیث میں ہے کہ راہ چلتوں پر آوازہ کشی کرتے تھے اور کنکر پتھر پھینکتے رہتے تھے۔ [مسند احمد:241/6:ضعیف] ‏‏‏‏

سیٹیاں بجاتے تھے کبوتربازی کرتے تھے، ننگے ہو جاتے تھے، کفر عنادسرکشی ضد اور ہٹ دھرمی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ نبی کے سمجھانے پر کہنے لگے جاجا پس نصیحت چھوڑ جن عذابوں سے ڈرارہا ہے انہیں تو لے آ۔ ہم بھی تیری سچائی دیکھیں۔ عاجز آ کر لوط علیہ السلام نے بھی اللہ کے آگے ہاتھ پھیلادئیے کہ اے اللہ! ان مفسدوں پر مجھے غلبہ دے میری مدد کر۔
6689



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.