تفسير ابن كثير



سورۃ العنكبوت

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَكْفُرُونَ[67] وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ[68] وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ[69]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک حرم امن والا بنا دیا ہے، جب کہ لوگ ان کے گرد سے اچک لیے جاتے ہیں، تو کیا وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں؟ [67] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا حق کو جھٹلا دے جب وہ اس کے پاس آئے۔ کیا ان کافروں کے لیے جہنم میں کوئی رہنے کی جگہ نہیں ہے؟ [68] اور وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور ہی انھیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بلاشبہ اللہ یقینا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ [69]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنا دیا ہے حاﻻنکہ ان کے اردگرد سے لوگ اچک لیے جاتے ہیں، کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری کرتے ہیں [67] اور اس سے بڑا ﻇالم کون ہوگا؟ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا جب حق اس کے پاس آجائے وه اسے جھٹلائے، کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہ ہوگا؟ [68] اور جو لوگ ہماری راه میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے [69]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو مقام امن بنایا ہے اور لوگ اس کے گرد ونواح سے اُچک لئے جاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ باطل پر اعتقاد رکھتے ہیں اور خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں [67] اور اس سے ظالم کون جو خدا پر جھوٹ بہتان باندھے یا جب حق بات اُس کے پاس آئے تو اس کی تکذیب کرے۔ کیا کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہے؟ [68] اور جن لوگوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم اُن کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے۔ اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے [69]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 67، 68، 69،

احسان کے بدلے احسان؟ ٭٭

اللہ تعالیٰ قریش کو اپنا احسان جتاتا ہے کہ اس نے اپنے حرم میں انہیں جگہ دی۔ جو شخص اس میں آ جائے، امن میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے آس پاس جدال وقتال، لوٹ مار ہوتی رہتی ہے اور یہاں والے امن و امان سے اپنے دن گزارتے ہیں۔

جیسے سورۃ «لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ» [106-قريش:1-4] ‏‏‏‏ میں بیان فرمایا۔ تو کیا اس اتنی بڑی نعمت کا شکریہ یہی ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کریں؟ بجائے ایمان لانے کے، شرک کریں اور خود تباہ ہو کر دوسروں کو بھی اسی ہلاکت والی راہ لے چلیں۔ انہیں تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ واحد کی عبادت میں سب سے بڑھے ہوئے رہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے اور سچے طرف دار رہیں۔ لیکن انہوں نے اس کے برعکس اللہ کے ساتھ شرک و کفر کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا اور ایذاء پہنچانا شروع کر رکھا ہے۔ اپنی سرکشی میں یہاں تک بڑھ گئے کہ اللہ کے پیغمبر کو مکے سے نکال دیا۔
6740

بالآخر اللہ کی نعمتیں ان سے چھننی شروع ہو گئیں۔ بدر کے دن ان کے بڑے بری طرح قتل ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ کو فتح کیا اور انہیں ذلیل و پست کیا۔ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ وحی آتی نہ ہو اور کہہ دے کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے اور اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں جو اللہ کی سچی وحی اور حق کو جھٹلائے اور باوجود حق پہنچنے کے تکذیب پر کمربستہ رہے۔

ایسے مفتری اور مکذب لوگ کافر ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ راہ اللہ میں مشقت کرنے والے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے اصحاب اور آپ کے تابع فرمان لوگ ہیں جو قیامت تک ہوں گے۔
6741

فرماتا ہے کہ ہم ان کوشش اور جستجو کرنے والوں کی رہنمائی کریں گے۔ دنیا اور دین میں ان کی رہبری کرتے رہیں گے۔

ابواحمد عباس ہمدانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مراد یہ ہے کہ جو لوگ اپنے علم پر عمل کرتے ہیں، اللہ انہیں ان امور میں بھی ہدایت دیتا ہے جو ان کے علم میں نہیں ہوتے۔

ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ سے جب یہ ذکر کیا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں کوئی بات پیدا ہو، گو وہ بھلی بات ہو۔ تاہم اسے اس پر عمل نہ کرنا چاہیے جب تک قرآن و حدیث سے وہ ثابت نہ ہو۔ جب ثابت ہو عمل کرے۔ اور اللہ کی حمد کرے کہ جو اس کے جی میں آیا تھا۔ وہی قرآن و حدیث میں بھی نکلا۔ اللہ تعالیٰ محسنین کے ساتھ ہے۔

عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ احسان اس کا نام ہے جو تیرے ساتھ بدسلوکی کرے تو اس کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ احسان کرنے والوں سے احسان کرنے کا نام احسان نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
6742



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.