تفسير ابن كثير



سورۃ الروم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ[8] أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ[9] ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَى أَنْ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُونَ[10]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور کیا انھوں نے اپنے دلوں میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اوران کے درمیان جو کچھ ہے اسے پیدا نہیں کیا مگر حق اور ایک مقرر وقت کے ساتھ اور بے شک بہت سے لوگ یقینا اپنے رب سے ملنے ہی کے منکر ہیں۔ [8] اور کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے۔ وہ ان سے قوت میں زیادہ سخت تھے اور انھوں نے زمین کو پھاڑا اور اسے آباد کیا اس سے زیادہ جو انھوں نے اسے آباد کیا ہے اور ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلیں لے کر آئے تو اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔ [9] پھر ان لوگوں کا انجام جنھوں نے برائی کی بہت برا ہی ہوا، اس لیے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور وہ ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ [10]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں یہ غور نہیں کیا؟ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب کو بہترین قرینے سے مقرر وقت تک کے لئے (ہی) پیدا کیا ہے، ہاں اکثر لوگ یقیناً اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں [8] کیا انہوں نے زمین پر چل پھر کر یہ نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا (برا) ہوا؟ وه ان سے بہت زیاده توانا (اور طاقتور) تھے اور انہوں نے (بھی) زمین بوئی جوتی تھی اور ان سے زیاده آباد کی تھی اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دﻻئل لے کر آئے تھے۔ یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ﻇلم کرتا لیکن (دراصل) وه خود اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے تھے [9] پھر آخر برا کرنے والوں کا بہت ہی برا انجام ہوا، اس لئے کہ وه اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلاتے اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے [10]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا اُنہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا۔ کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اُن کو حکمت سے اور ایک وقت مقرر تک کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں [8] کیا اُن لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی (سیر کرتے) تو دیکھ لیتے کہ جو لوگ اُن سے پہلے تھے ان کا انجام کیسے ہوا۔ وہ اُن سے زورو قوت میں کہیں زیادہ تھے اور اُنہوں نے زمین کو جوتا اور اس کو اس سے زیادہ آباد کیا تھا جو اُنہوں نے آباد کیا۔ اور اُن کے پاس اُن کے پیغمبر نشانیاں لےکر آتے رہے تو خدا ایسا نہ تھا کہ اُن پر ظلم کرتا۔ بلکہ وہی اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے [9] پھر جن لوگوں نے برائی کی اُن کا انجام بھی برا ہوا اس لیے کہ خدا کی آیتوں کو جھٹلاتے اور اُن کی ہنسی اُڑاتے رہے تھے [10]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 8، 9، 10،

کائنات کا ہر ذرہ دعوت فکر دیتا ہے ٭٭

چونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ حق جل وعلا کی قدرت کا نشان ہے اور اس کی توحید اور ربوبیت پر دلالت کرنے والا ہے اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ ” موجودات میں غور و فکر کیا کرو اور قدرت اللہ کی نشانیوں سے اس مالک کو پہچانو اور اس کی قدر و تعظیم کرو “۔

کبھی عالم علوی کو دیکھو، کبھی عالم سفلی پر نظر ڈال، کبھی اور مخلوقات کی پیدائش کو سوچو اور سمجھو کہ یہ چیزیں عبث اور بے کار پیدا نہیں کی گئیں۔ بلکہ رب نے انہیں کارآمد اور نشان قدرت بنایا ہے۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے یعنی قیامت کا دن۔ جسے اکثر لوگ مانتے ہی نہیں۔

اس کے بعد نبیوں کی صداقت کو اس طرح ظاہر فرماتا ہے کہ ” دیکھ لو ان کے مخالفین کا کس قدر عبرتناک انجام ہوا؟ اور ان کے ماننے والوں کو کس طرح دونوں جہاں کی عزت ملی؟ تم چل پھر کر اگلے واقعات معلوم کرو کہ گزشتہ امتیں جو تم سے زیادہ زور آور تھیں تم سے زیادہ مال و زر والی تھیں تم سے کنبے قبیلے اور بیٹے پوتے والی تھیں تم تو ان کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے وہ تم سے زیادہ عمر والے تھے۔ تم سے زیادہ آبادیاں انہوں نے کیں، تم سے زیادہ کھیتیاں اور باغات ان کے تھے اس کے باوجود جب ان کے پاس اس زمانے کے رسول آئے انہوں نے دلیلیں اور معجزے دکھائے اور پھر بھی اس زمانے کے ان بدنصیبوں نے ان کی نہ مانی اور اپنے خیالات میں مستغرق رہے اور سیاہ کاریوں میں مشغول رہے تو بالآخر عذاب اللہ ان پر برس پڑے “۔

اس وقت کوئی نہ تھا جو انہیں بچا سکے یا کسی عذاب کو ان پر سے ہٹا سکے۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کرے۔
6764

یہ عذاب تو ان کے اپنے کرتوتوں کا وبال تھا۔ یہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے رب کی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَ‌هُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّ‌ةٍ وَنَذَرُ‌هُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ» [6-الأنعام:110] ‏‏‏‏” ان کی بےایمانی کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں کو ان کی نگاہوں کو پھیر دیا اور انہیں ان کی سرکشی میں ہی حیران چھوڑ دیا ہے “۔

اور آیت میں ہے «فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ» [61-الصف:5] ‏‏‏‏ ” ان کی کجی کی وجہ سے اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے “ اور اس آیت میں ہے کہ «فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ» [5-المائدة:49] ‏‏‏‏ ” اگر اب بھی منہ موڑیں تو سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض گناہوں پر ان کی پکڑ کرنے کا ارادہ کرچکا ہے “۔

اس بناء پر «اَلسُّوایٰ» منصوب ہو گا «اَسَاءُ» کا مفعول ہو کر۔ اور یہ بھی قول ہے کہ «سُّوایٰ» یہاں پر اس طرح واقع ہے کہ برائی ان کا انجام ہوئی۔ اس لیے کہ وہ آیات اللہ کے جھٹلانے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے تھے۔ تو اس معنی کی رو سے یہ لفظ منصوب ہو گا «کَان» کی خبر ہو کر۔

امام ابن جریررحمہ اللہ نے یہی توجیہہ بیان کی ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادۃ رحمہ اللہ سے نقل بھی کی ہے۔ ضحاک رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ اس کے بعد آیت «ووَكَانُوْا بِهَا يَسْتَهْزِءُوْنَ» [30- الروم:10] ‏‏‏‏ ہے۔
6765



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.