تفسير ابن كثير



سورۃ الروم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ[48] وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ[49] فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ ذَلِكَ لَمُحْيِي الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[50] وَلَئِنْ أَرْسَلْنَا رِيحًا فَرَأَوْهُ مُصْفَرًّا لَظَلُّوا مِنْ بَعْدِهِ يَكْفُرُونَ[51]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں، پھر وہ اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے جیسے چاہتا ہے اور وہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ پس تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے نکل رہی ہے، پھر جب وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برسا دیتا ہے تو اچانک وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ [48] حالانکہ بے شک وہ اس سے پہلے کہ ان پر برسائی جائے، اس سے پہلے یقینا ناامید تھے۔ [49] سو اللہ کی رحمت کے نشانات کی طرف دیکھ کہ وہ کس طرح زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے، بے شک وہی یقینا مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ [50] اور یقینا اگر ہم کوئی ہوا بھیجیں، پھر وہ اس (کھیتی) کو زرد پڑی ہوئی دیکھیں تو یقینا اس کے بعد نا شکری کرنے لگیں۔ [51]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے وه ابر کو اٹھاتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ اپنی منشا کے مطابق اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کےاندر سے قطرے نکلتے ہیں، اور جنہیں اللہ چاہتا ہے ان بندوں پر پانی برساتا ہے تو وه خوش خوش ہو جاتے ہیں [48] یقین ماننا کہ بارش ان پر برسنے سے پہلے پہلے تو وه ناامید ہو رہے تھے [49] پس آپ رحمت الٰہی کے آﺛار دیکھیں کہ زمین کی موت کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اسے زنده کر دیتا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ وہی مردوں کو زنده کرنے واﻻ ہے، اور وه ہر ہر چیز پر قادر ہے [50] اور اگر ہم باد تند چلا دیں اور یہ لوگ انہی کھیتوں کو (مرجھائی ہوئی) زرد پڑی ہوئی دیکھ لیں تو پھر اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں [51]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] خدا ہی تو ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو اُبھارتی ہیں۔ پھر خدا اس کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا اور تہ بتہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے مینھہ نکلنے لگتا ہے پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے اُسے برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں [48] اور بیشتر تو وہ مینھہ کے اُترنے سے پہلے نااُمید ہو رہے تھے [49] تو (اے دیکھنے والے) خدا کی رحمت کی نشانیوں کی طرف دیکھ کہ وہ کس طرح زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ بیشک وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے [50] اور اگر ہم ایسی ہوا بھیجیں کہ وہ (اس کے سبب) کھیتی کو دیکھیں (کہ) زرد (ہو گئی ہے) تو اس کے بعد وہ ناشکری کرنے لگ جائیں [51]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 48، 49، 50، 51،

ناامیدی کے اندھیروں میں امید کے اجالے رحمت و زحمت کی ہوائیں ٭٭

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ” وہ ہوائیں بھیجتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں یا تو سمندر پر سے یا جس طرح اور جہاں سے اللہ کا حکم ہو۔ پھر رب العالمین ابر کو آسمان پر پھیلا دیتا ہے اسے بڑھا دیتا ہے تھوڑے کو زیادہ کر دیتا ہے “۔

تم نے اکثر دیکھا ہو گا کہ بالشت دو بالشت کا ابر اٹھا پھر جو وہ پھیلا تو آسمان کے کنارے ڈھانپ لیے۔ اور کبھی یہ بھی دیکھا ہوگا کہ سمندروں سے پانی کے بھرے ابر اٹھتے ہیں۔ اسی مضمون کو آیت «‏‏‏‏وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ» [7-الاعراف:57] ‏‏‏‏، میں بیان فرمایا ہے پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے اور تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے۔ وہ پانی سے سیاہ ہو جاتے ہیں۔ زمین کے قریب ہو جاتے ہیں۔ پھر بارش ان بادلوں کے درمیان سے برسنے لگتی ہے جہاں برسی وہیں کے لوگوں کی باچھیں کھل گئیں۔

پھر فرماتا ہے ” یہی لوگ بارش سے ناامید ہو چکے تھے اور پوری نا امیدی کے وقت بلکہ نا امیدی کے بعد ان پر بارشیں برسیں اور جل تھل ہوگئے “۔ دو دفعہ «مِنْ قَبْلِ» کا لفظ لانا تاکید کے لیے ہے۔ «ہٖ» کی ضمیر کا مرجع «اِنْزَال» ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تاسیسی دلالت ہو۔ یعنی بارش ہونے سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے وقت کے ختم ہو جانے کے قریب بارش نہ ہونے کی وجہ سے یہ مایوس ہو چکے تھے۔
6815

پھر اس نا امیدی کے بعد دفعتاً ابر اٹھتا ہے اور برس جاتا ہے اور ریل پیل کر دیتا ہے۔ اور ان کی خشک زمین تر ہو جاتی ہے قحط سالی ترسالی سے بدل جاتی ہے۔ یا تو زمین صاف چٹیل میدان تھی یا ہر طرف ہریاول دکھائی دینے لگتی ہے۔

دیکھ لو کہ پروردگار عالم بارش سے کس طرح مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے، یاد رکھو جس رب کی یہ قدرت تم دیکھ رہے وہ ایک دن مردوں کو ان قبروں سے بھی نکالنے والا ہے۔ حالانکہ ان کے جسم گل سڑگئے ہونگے۔ سمجھ لو کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔

پھر فرماتا ہے ” اگر ہم باد تند چلائیں اگر آندھیاں آ جائیں اور ان کی لہلاتی ہوئی کھیتیاں پژمردہ ہو جائیں تو وہ پھر سے کفر کرنے لگ جاتے ہیں “۔ چنانچہ سورۃ الواقعہ میں بھی یہی بیان ہوا ہے۔ آیت «‏‏‏‏اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ» ‏‏‏‏ [56-الواقعة:63] ‏‏‏‏ سے «‏‏‏‏بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ» [56-الواقعة:67] ‏‏‏‏ تک۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہوائیں آٹھ قسم کی ہیں چار رحمت کی چار زحمت کی۔ ناشرات، مبشرات، مرسلات اور ذاریات تو رحمت کی ہیں۔ اور عقیم، صرصر، عاصف اور قاصف عذاب کی۔ ان میں پہلی دو خشکیوں کی ہیں اور آخری دو تری کی۔
6816

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہوائیں دوسری سے مسخر ہیں یعنی دوسری زمین سے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کی ہلاکت کا ارادہ کیا تو ہواؤں کے داروغہ کو یہ حکم دیا اس نے دریافت کیا کہ جناب باری تعالیٰ کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا سوراخ کر دوں جتنا بیل کا نتھا ہوتا ہے؟ تو فرمان اللہ ہوا کہ ” نہیں نہیں اگر ایسا ہوا تو کل زمین اور زمین کی پوری چیزیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ اتنا نہیں بلکہ اتنا روزن کر جتنا انگوٹھی میں نگینہ ہوتا ہے “۔

اب صرف اتنے سوراخ سے وہ ہوا چلی جو جہاں پہنچی وہاں بھس اڑادیا۔ جس چیز پر سے گزری اسے بے نشان کر دیا
۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کا مرفوع ہونا مکروہ ہے۔ زیادہ ظاہر یہی ہے کہ یہ خود سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ (‏‏‏‏ [ضعیف] ‏‏‏‏:اسکی سند میں درج راوی ضعیف ہے)‏‏‏‏‏‏‏‏
6817



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.