تفسير ابن كثير



سورۃ الروم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ كَذَلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ[55] وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْبَعْثِ فَهَذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ[56] فَيَوْمَئِذٍ لَا يَنْفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ[57]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جس دن قیامت قائم ہوگی مجرم قسمیں کھائیں گے کہ وہ ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے۔ اسی طرح وہ بہکائے جاتے تھے۔ [55] اور وہ لوگ جنھیں علم اور ایمان دیا گیا کہیں گے کہ بلاشبہ یقینا تم اللہ کی کتاب میں اٹھائے جانے کے دن تک ٹھہرے رہے، سو یہ اٹھائے جانے کا دن ہے اور لیکن تم نہیں جانتے تھے۔ [56] تو اس دن ان لوگوں کو جنھوں نے ظلم کیا تھا ان کا عذر کرنا فائدہ نہ دے گا اور نہ انھیں معافی مانگنے کا موقع دیا جائے گا۔ [57]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جس دن قیامت برپا ہو جائے گی گناه گار لوگ قسمیں کھائیں گے کہ (دنیا میں) ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے، اسی طرح یہ بہکے ہوئے ہی رہے [55] اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا وه جواب دیں گے کہ تم تو جیسا کہ کتاب اللہ میں ہے یوم قیامت تک ٹھہرے رہے۔ آج کا یہ دن قیامت ہی کا دن ہے لیکن تم تو یقین ہی نہیں مانتے تھے [56] پس اس دن ﻇالموں کو ان کا عذر بہانہ کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان سے توبہ اور عمل طلب کیا جائے گا [57]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جس روز قیامت برپا ہوگی گنہگار قسمیں کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں) ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے تھے۔ اسی طرح وہ (رستے سے) اُلٹے جاتے تھے [55] اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ خدا کی کتاب کے مطابق تم قیامت تک رہے ہو۔ اور یہ قیامت ہی کا دن ہے لیکن تم کو اس کا یقین ہی نہیں تھا [56] تو اس روز ظالم لوگوں کو ان کا عذر کچھ فائدہ نہ دے گا اور نہ اُن سے توبہ قبول کی جائے گی [57]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 55، 56، 57،

واپسی ناممکن ہو گی ٭٭

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ” کفار دنیا اور آخرت کے کاموں سے بالکل جاہل ہیں۔ دنیا میں ان کی جہالت تو یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے رہے اور اخرت میں یہ جہالت کریں گے کہ قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک ساعت ہی رہے “۔

اس سے ان کامقصد یہ ہو گا کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم پر کوئی حجت قائم نہیں ہوئی۔ ہمیں معذور سمجھا جائے۔ اسی لیے فرمایا کہ ” یہ جیسے یہاں بہکی بہکی باتیں کررے ہیں دنیا میں یہ بہکے ہوئے ہی رہے “۔

فرماتا ہے کہ ” علماء کرام جس طرح ان کے اس کہنے پر دنیا میں انہیں دلائل دے کر قائل معقول کرتے رہے آخرت میں بھی ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹی قسمیں کھا رہے ہو “۔

تم کتاب اللہ یعنی کتاب اعمال میں اپنی پیدائش سے لے کر جی اٹھنے تک ٹھہرے رہے لیکن تم بےعلم اور نرے جاہل لوگ ہو۔ پس قیامت کے دن ظالموں کو اپنے کرتوت سے معذرت کرنا محض بےسود رہے گا۔ اور دنیا کی طرف لوٹائے نہ جائیں گے۔

جیسے فرمان ہے آیت «وَاِنْ يَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِيْنَ» ‏‏‏‏ [41-فصلت:24] ‏‏‏‏ یعنی ” اگر وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں تو لوٹ نہیں سکتے “۔
6825



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.