تفسير ابن كثير



سورۃ لقمان

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ[27] مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ[28]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اگر ایسا ہو کہ زمین میں جو بھی درخت ہیں قلمیں ہوں اور سمندر اس کی سیاہی ہو، جس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی، یقینا اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والاہے۔ [27] نہیں ہے تمھارا پیدا کرنا اور نہ تمھارا اٹھانا مگر ایک جان کی طرح۔ بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ [28]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہو جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے، بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور باحکمت ہے [27] تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد جلانا ایسا ہی ہے جیسے ایک جی کا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے واﻻ دیکھنے واﻻ ہے [28]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں اور سمندر (کا تمام پانی) سیاہی ہو (اور) اس کے بعد سات سمندر اور (سیاہی ہو جائیں) تو خدا کی باتیں (یعنی اس کی صفتیں) ختم نہ ہوں۔ بیشک خدا غالب حکمت والا ہے [27] (خدا کو) تمہارا پیدا کرنا اور جِلا اُٹھانا ایک شخص (کے پیدا کرنے اور جلا اُٹھانے) کی طرح ہے۔ بیشک خدا سننے والا دیکھنے والا ہے [28]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 27، 28،

حمد و ثنا کا حق ادا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ٭٭

اللہ رب العلمین اپنی عزت کبریائی، بڑائی اور بزرگی، جلالت اور شان بیان فرما رہا ہے۔ اپنی پاک صفتیں اپنے بلند ترین نام اور اپنے بے شمار کلمات کا ذکر فرما رہا ہے جنہیں نہ کوئی گن سکے نہ شمار کر سکے نہ ان پر کسی کا احاطہٰ ہو نہ ان کی حقیقت کو کوئی پاسکے۔

سید البشر ختم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے «‏‏‏‏لاَ أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ» اے اللہ!میں تیری تعریفوں کا اتنا شمار بھی نہیں کرسکتا جتنی ثناء تو نے اپنے آپ فرمائی ہے ۔ [صحیح مسلم:486] ‏‏‏‏

پس یہاں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ ” اگر روئے زمین کے تمام تر درخت قلمیں بن جائیں اور تمام سمندر کے پانی سیاہی بن جائیں اور ان کے ساتھ ہی سات سمندر اور بھی ملالئے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و صفات جلالت و بزرگی کے کلمات لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ تمام قلمیں گھس جائیں ختم ہو جائیں سب سیاہیاں پوری ہو جائیں ختم ہو جائیں لیکن اللہ «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» کی تعریفیں ختم نہ ہوں “۔

یہ نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر سے زیادہ ہوں تو پھر اللہ کے پورے کلمات لکھنے کے لیے کافی ہو جائیں۔ نہیں یہ گنتی تو زیادتی دکھانے کے لیے ہے۔ اور یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر موجود ہیں اور وہ عالم کو گھیرے ہوئے ہیں البتہ بنواسرائیل کی ان سات سمندروں کی بات ایسی روایتیں ہیں لیکن نہ تو انہیں سچ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جا سکتا ہے۔

ہاں جو تفسیر ہم نے کہ ہے اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے «‏‏‏‏قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا» [18-الكهف:109] ‏‏‏‏، یعنی ” اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور رب کے کلمات کا لکھنا شروع ہو تو کلمات اللہ کے ختم ہونے سے پہلے ہی سمندر ختم ہو جائیں اگرچہ ایسا ہی اور سمندر اس کی مدد میں لائیں “۔

پس یہاں بھی مراد صرف اسی جیسا ایک ہی سمندر لانا نہیں بلکہ ویسا ایک پھر ایک اور بھی ویسا ہی پھر ویسا ہی پھر ویسا ہی الغرض خواہ کتنے ہی آجائیں لیکن اللہ کی باتیں ختم نہیں ہو سکتیں۔

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ لکھوانا شروع کرے کہ میرا یہ امر اور یہ امر تو تمام قلمیں ٹوٹ جائیں اور تمام سمندروں کے پانی ختم ہو جائیں۔‏‏‏‏ مشرکین کہتے تھے کہ یہ کلام اب ختم ہو جائے گا جس کی تردید اس آیت میں ہو رہی ہے کہ نہ رب کے عجائبات ختم ہوں نہ اس کی حکمت کی انتہا نہ اس کی صفت اور اس کے علم کا آخر۔ تمام بندوں کے علم اللہ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ۔ اللہ کی باتیں فنا نہیں ہوتیں نہ اسے کوئی ادراک کر سکتا ہے۔ ہم جو کچھ اس کی تعریفیں کریں وہ ان سے سوا ہے۔

یہود کے علماء نے مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں پڑھتے ہیں آیت «وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا» [17-الإسراء:85] ‏‏‏‏ یعنی ” تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے “، اس سے کیا مراد ہے ہم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں سب ۔ انہوں نے کہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلام اللہ شریف کی اس آیت کو کیا کریں گے جہاں فرمان ہے کہ توراۃ میں ہر چیز کا بیان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو وہ اور تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کے کلمات کے مقابلہ میں بہت کم ہے تمہیں کفایت ہو اتنا اللہ تعالیٰ نے نازل فرمادیا ہے ۔ اس پر آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:28/49:ضعیف] ‏‏‏‏
6884

لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہونی چاہیئے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے تمام اشیاء اس کے سامنے پست و عاجز ہیں کوئی اس کے ارادے کے خلاف نہیں جا سکتا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا اس کی منشاء کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ وہ اپنے افعال اقوال شریعت حکمت اور تمام صفتوں میں سب سے اعلی غالب وقہار ہے۔

پھر فرماتا ہے ” تمام لوگوں کا پیدا کرنا اور انہیں مار ڈالنے کے بعد زندہ کر دینا مجھ پر ایسا ہی آسان ہے جیسے کہ ایک شخص کو مارنا اور پیدا کرنا “۔ اس کا تو کسی بات کو حکم فرما دینا کافی ہے۔ ایک آنکھ جھپکانے جتنی دیر بھی نہیں لگتی۔ نہ دوبارہ کہنا پڑے نہ اسباب اور مادے کی ضرورت۔

ایک فرمان میں قیامت قائم ہو جائے گی ایک ہی آواز کے ساتھ سب جی اٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ تمام باتوں کا سننے والا ہے سب کے کاموں کا جاننے والا ہے۔ ایک شخص کی باتیں اور اس کے کام جیسے اس پر مخفی نہیں اسی طرح تمام جہان کے معاملات اس سے پوشیدہ نہیں۔
6885



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.