تفسير ابن كثير



سورۃ الأحزاب

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا[9] إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا[10]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ پر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھنے والا تھا۔ [9] جب وہ تم پر تمھارے اوپر سے اور تمھارے نیچے سے آگئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کے بارے میں گمان کرتے تھے، کئی طرح کے گمان۔ [10]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جبکہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز وتند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے [9] جب کہ (دشمن) تمہارے پاس اوپر سے اور نیچے سے چڑھ آئے اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منھ کو آگئے اور تم اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے [10]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مومنو خدا کی اُس مہربانی کو یاد کرو جو (اُس نے) تم پر (اُس وقت کی) جب فوجیں تم پر (حملہ کرنے کو) آئیں۔ تو ہم نے اُن پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل کئے) جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا اُن کو دیکھ رہا ہے [9] جب وہ تمہارے اُوپر اور نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل (مارے دہشت کے) گلوں تک پہنچ گئے اور تم خدا کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے [10]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 9، 10،

غزوئہ خندق اور مسلمانوں کی خستہ حالی ٭٭

جنگ خندق میں جو سنہ ٥ ہجری ماہ شوال میں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر اپنا فضل و احسان کیا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے۔ جبکہ مشرکین نے پوری طاقت سے اور پورے اتحاد سے مسلمانوں کو مٹا دینے کے ارادے سے زبردست لشکر لے کر حملہ کیا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں جنگ خندق سنہ ٤ ہجری میں ہوئی تھی۔

اس لڑائی کا قصہ یہ ہے کہ بنو نضیر کے یہودی سرداروں نے جن میں سلام بن ابو حقیق، سلام بن مشکم، کنانہ بن ربیع وغیرہ تھے مکے میں آ کر قریشیوں کو جو اول ہی سے تیار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے پر آمادہ کیا اور ان سے عہد کیا کہ ہم اپنے زیر اثر لوگوں کے ساتھ آپ کی جماعت میں شامل ہیں۔ انہیں آمادہ کر کے یہ لوگ قبیلہ غطفان کے پاس گئے ان سے ساز باز کر کے اپنے ساتھ شامل کر لیا قریشیوں نے بھی ادھر ادھر پھر کر تمام عرب میں آگ لگا کر سب گرے پڑے لوگوں کو بھی ساتھ ملالیا۔ ان سب کا سردار ابوسفیان صخر بن حرب بنا اور غطفان کا سردار عیینہ بن حصن بن بدر مقرر ہوا۔ ان لوگوں نے کوشش کر کے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کر لیا اور مدینے کی طرف چڑھ دوڑے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس لشکر کشی کی خبریں پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ مشورہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مدینے شریف کی مشرقی سمت میں خندق یعنی کھائی کھدوائی اس خندق کے کھودنے میں تمام صحابہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم شامل تھے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بہ نفس نفیس اس کے کھودنے اور مٹی ڈھونے میں بھی حصہ لیتے تھے۔ مشرکین کا لشکر بلا مزاحمت مدینے شریف تک پہنچ گیا اور مدینے کے مشرقی حصے میں احد پہاڑ کے متصل اپنا پڑاؤ جمایا۔
6967

یہ تھا مدینے کا نیچا حصہ اوپر کے حصے میں انہوں نے اپنی ایک بڑی بھاری جمعیت بھیج دی جس نے اعالی مدینہ میں لشکر کا پڑاؤ ڈالا اور نیچے اوپر سے مسلمانوں کو محصور کر لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو جو تین ہزار سے نیچے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ صرف سات سو تھے لے کر ان کے مقابلے پر آئے۔

سلع پہاڑی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پشت پر کیا اور دشمنوں کی طرف متوجہ ہو کر فوج کو ترتیب دیا۔ خندق جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھودی اور کھدوائی تھی اس میں پانی وغیرہ نہ تھا وہ صرف ایک گڑھا تھا جو مشرکین کے ریلے کو بیروک آنے نہیں دیتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں اور عورتوں کو مدینے کے ایک محلے میں کر دیا۔

یہودیوں کی ایک جماعت بنو قریظہ مدینے میں تھی مشرقی جانب ان کا محلہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ مضبوط تھا ان کا بھی بڑا گروہ تھا تقریباً آٹھ سو جنگجو لڑنے کے قابل میدان میں موجود تھے مشرکین اور یہود نے ان کے پاس حی بن اخطب نضری کو بھیجا اس نے انہیں بھی شیشے میں اتار کر سبز باغ دکھلا کر اپنی طرف کر لیا اور انہوں نے بھی ٹھیک موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ بد عہدی کی، اور اعلانیہ طور پر صلح توڑ دی۔

باہر سے دس ہزار کا وہ لشکر جو گھیرا ڈالے پڑا ہے اندر سے ان یہودیوں کی بغاوت جو بغلی پھوڑے کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمان بتیس دانتوں میں زبان یا آٹے میں نمک کی طرح ہوگئے۔ یہ کل سات سو آدمی کر ہی کیا سکتے تھے۔ یہ وقت تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ ” آنکھیں پتھرا گئیں دل الٹ گئے طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ جھنجھوڑ دئیے گئے اور سخت امتحان میں مبتلا ہو گئے “۔

مہینہ بھر تک محاصرہ کی یہی تلخ صورت قائم رہی گو مشرکین کی یہ جرأت تو نہیں ہوئی کہ خندق سے پار ہو کر دستی لڑائی لڑتے لیکن ہاں گھیرا ڈالے پڑے رہے اور مسلمانوں کو تنگ کر دیا۔ البتہ عمرو بن عبدود عامری جو عرب کا مشہور شجاع پہلوان اور فن سپہ سالاری میں یکتا تھا ساتھ ہی بہادر جی دار اور قوی تھا ایک مرتبہ ہمت کر کے اپنے ساتھ چند جانباز پہلوانوں کو لے کر خندق سے اپنے گھوڑوں کو گزارلایا۔

یہ حال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سواروں کی طرف اشارہ کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ انہیں تیار نہ پاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم اس کے مقابلے پر آ جاؤ آپ رضی اللہ عنہ گئے تھوڑی دیر تک تو دونوں بہادروں میں تلوار چلتی رہی لیکن بالآخر علی رضی اللہ عنہ نے کفر کے اس دیو کو تہہ تیغ کیا ـ جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ فتح ہماری ہے۔

پھر پروردگار نے وہ تندوتیز آندھی بھیجی کہ مشرکین کے تمام خیمے اکھڑے گئے کوئی چیز قرینے سے نہ رہی آگ کا جلانا مشکل ہو گیا۔ کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی۔
6968

بالآخر تنگ آ کر نا مرادی سے واپس ہوئے۔ جس کا بیان اس آیت میں ہے۔ جس ہوا کا اس آیت میں ذکر ہے بقول مجاہد رحمۃ اللہ یہ صبا ہے اور اس کی تائید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ میں صبا ہوا سے مدد دیا گیا ہوں اور قوم عاد کے لوگ تند و تیز ہواؤں سے ہلاک کئے گئے تھے ۔ [صحیح بخاری:4105] ‏‏‏‏

عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جنوبی ہوا نے شمالی ہوا سے اس جنگ احزاب میں کہا کہ چل ہم تم جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں تو شمالی ہوا نے کہا کہ گرمی رات کو نہیں چلاتی۔ پھر ان پر صبا ہوا بھیجی گئی۔‏‏‏‏

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مجھے میرے ماموں عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے خندق والی رات سخت جاڑے اور تیز ہوا میں مدینہ شریف بھیجا کہ کھانا اور لحاف لے آؤں۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ میرے جو صحابی تمہیں ملیں انہیں کہنا کہ میرے پاس چلے آئیں ۔ اب میں چلا ہوائیں زناٹے کی شائیں شائیں چل رہی تھیں۔ مجھے جو مسلمان ملا میں نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا اور جس نے سنا الٹے پاؤں فوراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ہوا میری ڈھال کو دھکے دے رہی تھی اور وہ مجھے لگ رہی تھی یہاں تک کہ اس کا لوہا میرے پاؤں پر گرپڑا جسے میں نے نیچے پھینک دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:28361:ضعیف] ‏‏‏‏

اس ہوا کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھی نازل فرمائے تھے جنہوں نے مشرکین کے دل اور سینے خوف اور رعب سے بھر دئیے۔ یہاں تک کہ جتنے سرداران لشکر تھے اپنے ماتحت سپاہیوں کو اپنے پاس بلا بلا کر کہنے لگے نجات کی صورت تلاش کرو، بچاؤ کا انتظام کرو۔ یہ تھا فرشتوں کا ڈالا ہوا ڈر اور رعب اور یہی وہ لشکر ہے جس کا بیان اس آیت میں ہے کہ ” اس لشکر کو تم نے نہیں دیکھا “۔

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے ایک نوجوان شخص نے جو کوفے کے رہنے والے تھے کہا کہ اے ابوعبداللہ تم بڑے خوش نصبیب ہو کہ تم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے بتاؤ تم کیا کرتے تھے؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ! ہم جان نثاریاں کرتے تھے۔ نوجوان فرمانے لگے سنئے چچا اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو پاتے تو واللہ! آپ کو قدم زمین پر نہ رکھنے دیتے اپنی گردنوں پر اٹھا کر لے جاتے۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے بھیتجے لو ایک واقعہ سنو جنگ خندق کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی رات تک نماز پڑھتے رہے۔ فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ کوئی ہے جا کر لشکر کفار کی خبر لائے؟ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے شرط کرتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ کوئی کھڑا نہ ہوا کیونکہ خوف کی بھوک کی اور سردی کی انتہا تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک نماز پڑھتے رہے۔
6969

پھر فرمایا کوئی جو جا کر یہ خبر دے کہ مخالفین نے کیا کیا؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے مطمئن کرتے ہیں کہ وہ ضرور واپس آئے گا اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں میرا رفیق کرے ۔ اب تک بھی کوئی کھڑا نہ ہوا اور کھڑا ہوتا کیسے؟ بھوک کے مارے پیٹ کمر سے لگ رہا تھا سردی کے مارے دانت بج رہے تھے، خوف کے مارے پتے پانی ہو رہے تھے۔

بالآخر میرا نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اب تو بے کھڑے ہوئے چارہ نہ تھا۔ فرمانے لگے حذیفہ (‏‏‏‏رضی اللہ عنہ) تو جا اور دیکھ کہ وہ اس وقت کیا کر رہے ہیں دیکھ جب تک میرے پاس واپس نہ پہنچ جائے کوئی نیا کام نہ کرنا ۔ میں نے بہت خوب کہہ کر اپنی راہ لی اور جرأت کے ساتھ مشرکوں میں گھس گیا وہاں جا کر عجیب حال دیکھا کہ دکھائی نہ دینے والے اللہ کے لشکر اپنا کام پھرتی سے کر رہے ہیں۔ چولہوں پر سے دیگیں ہوا نے الٹ دی ہیں۔ خیموں کی چوبیں اکھڑ گئی ہیں، آگ جلا نہیں سکتے۔ کوئی چیز اپنے ٹھکانے پر نہیں رہی۔

اسی وقت ابوسفیان کھڑا ہوا اور با آواز بلند منادی کی کہ اے قریشیوں! اپنے اپنے ساتھی سے ہوشیار ہو جاؤ۔ اپنے ساتھی کو دیکھ بھال لو ایسا نہ ہو کوئی غیر کھڑا ہو۔ میں نے یہ سنتے ہی میرے پاس جو ایک قریشی جوان تھا اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں۔ میں نے کہا اب ہوشیار رہنا۔
6970

پھر ابوسفیان نے کہا قریشیو اللہ گواہ ہے ہم اس وقت کسی ٹھہرنے کی جگہ پر نہیں ہیں۔ ہمارے مویشی ہمارے اونٹ ہلاک ہو رہے ہیں۔ بنو قریظہ نے ہم سے وعدہ خلافی کی اس نے ہمیں بڑی تکلیف پہنچائی، پھر اس ہوا نے تو ہمیں پریشان کر رکھا ہے ہم پکا کھا نہیں سکتے آگ تک نہیں جلا سکتے خیمے ڈیرے ٹھہر نہیں سکتے۔ میں تو تنگ آ گیا ہوں اور میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ واپس ہو جاؤں پس میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ واپس چلو۔ اتنا کہتے ہی اپنے اونٹ پر جو زانوں بندھا ہوا بیٹھا تھا چڑھ گیا اور اسے مارا وہ تین پاؤں سے ہی کھڑا ہو گیا پھر اس کا پاؤں کھولا۔

اس وقت ایسا اچھا موقع تھا کہ اگر میں چاہتا ایک تیر میں ہی ابوسفیان کا کام تمام کر دیتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرما دیا تھا کہ کوئی نیا کام نہ کرنا اس لیے میں نے اپنے دل کو روک لیا۔ اب میں واپس لوٹا اور اپنے لشکر میں آ گیا جب میں پہنچا تو میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر کو لپیٹے ہوئے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی صاحبہ کی تھی نماز میں مشغول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کراپنے دونوں پیروں کے درمیان بٹھالیا اور چادر مجھے بھی اڑھا دی۔ پھر رکوع اور سجدہ کیا اور میں وہیں وہی چادر اوڑھے بیٹھا رہا۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ قریشیوں کے واپس لوٹ جانے کی خبر جب قبیلہ غطفان کو پہنچی تو انہوں نے بھی سامان باندھا اور واپس لوٹ گئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:28362:] ‏‏‏‏
6971

اور روایت میں سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب میں چلا تو باوجود کڑاکے کی سخت سردی کے قسم اللہ کی مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کسی گرم حمام میں ہوں۔‏‏‏‏ اس میں یہ بھی ہے کہ جب میں لشکر کفار میں پہنچا ہوں اس وقت ابوسفیان آگ سلگائے ہوئے تاپ رہا تھا میں نے اسے دیکھ کر اپنا تیر کمان پر چڑھالیا اور چاہتا تھا کہ چلادوں اور بالکل زد میں تھا ناممکن تھا کہ میر انشانہ خالی جائے لیکن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ کوئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ وہ چوکنے ہو کر بھڑک جائیں ، تو میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔

جب میں واپس آیا اس وقت بھی مجھے کوئی سردی محسوس نہ ہوئی بلکہ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا میں حمام میں چل رہا ہوں۔ ہاں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا بڑے زور کی سردی لگنے لگی اور میں کپکپانے لگا توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مجھے اوڑھادی۔ میں جو اوڑھ کر لیٹا تو مجھے نیند آگئی اور صبح تک پڑا سوتا رہا صبح خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مجھے یہ کہہ کر جگایا کہ اے سونے والے بیدار ہو جا ۔ [صحیح مسلم:1788] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ جب اس تابعی رحمہ اللہ نے کہا کہ کاش ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو پاتے، تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کاش! کہ تم جیسا ایمان ہمیں نصیب ہو تاکہ باوجود نہ دیکھنے کے پورا اور پختہ عقیدہ رکھتے ہو۔ برادر زادے جو تمنا کرتے ہو یہ تمنا ہی ہے نہ جانے تم ہوتے تو کیا کرتے؟ ہم پر تو ایسے کٹھن وقت آئے ہیں۔‏‏‏‏ یہ کہہ کہ پھر آپ نے مندرجہ بالا خندق کی رات کا واقعہ بیان کیا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ہوا جھڑی اور آندھی کے ساتھ بارش بھی تھی۔‏‏‏‏ [دلائل النبوۃ للبیهقی:454/3:صحیح] ‏‏‏‏
6972

اور روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کے واقعات کو بیان فرما رہے تھے جو اہل مجلس نے کہا کہ اگر ہم اس وقت موجود ہوتے تو یوں اور یوں کرتے اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ بیان فرما دیا کہ باہر سے تو دس ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے اندر سے بنو قریظہ کے آٹھ سو یہودی بگڑے ہوئے ہیں بال بچے اور عورتیں مدینے میں ہیں خطرہ لگا ہوا ہے اگر بنو قریظہ نے اس طرف کا رخ کیا تو ایک ساعت میں ہی عورتوں بچوں کا فیصلہ کر دیں گے۔

واللہ! اس رات جیسی خوف وہراس کی حالت کبھی ہم پر کبھی نہیں گزری۔ پھر وہ ہوائیں چلتی ہیں، آندھیاں اٹھتی ہیں، اندھیرا چھا جاتا ہے، کڑک گرج اور بجلی ہوتی ہے کہ العظمتہ اللہ۔ ساتھی کو دیکھنا تو کہاں اپنی انگلیاں بھی نظر نہیں آتی تھیں۔ جو منافق ہمارے ساتھ تھے وہ ایک ایک ہو کر یہ بہانا بنا کر ہمارے بال بچے اور عورتیں وہاں ہیں اور گھر کا نگہبان کوئی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آ آ کر اجازت چاہنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی ایک کو نہ روکا جس نے کہا کہ میں جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شوق سے جاؤ ۔

وہ ایک ایک ہو کر سرکنے لگے اور ہم صرف تین سو کے قریب رہ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب تشریف لائے ایک ایک کو دیکھا میری عجیب حالت تھی نہ میرے پاس دشمن سے بچنے کے لیے کوئی آلہ تھا نہ سردی سے محفوظ رہنے کے لیے کوئی کپڑا تھا۔ صرف میری بیوی کی ایک چھوٹی سی چادر تھی جو میرے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچتی تھی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے اس وقت میں اپنے گھٹنوں میں سر ڈالے ہوئے دبک کر بیٹھا ہوا کپکپارہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہیں؟ میں نے کہا حذیفہ۔ فرمایا: حذیفہ سن! واللہ مجھ پر تو زمین تنگ آگئی کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کھڑا نہ کریں میری تو درگت ہو رہی ہے لیکن کرتا کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن رہا ہوں ارشاد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دشمنوں میں ایک نئی بات ہونے والی ہے جاؤ ان کی خبر لاؤ ۔
6973

واللہ اس وقت مجھ سے زیادہ نہ تو کسی کو خوف تھا نہ گھبراہٹ تھی نہ سردی تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنتے ہی کھڑا ہو گیا اور چلنے لگا تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا کر رہے ہیں کہ اے اللہ اس کے آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے نیچے سے اس کی حفاظت کر ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ کسی قسم کا خوف ڈر دہشت میرے دل میں تھی ہی نہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دے کر فرمایا: دیکھو حذیفہ وہاں جا کر میرے پاس واپس آنے تک کوئی نئی بات نہ کرنا ۔

اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میں ابوسفیان کو اس سے پہلے پہچانتا نہ تھا میں گیا تو وہاں یہی آوازیں لگ رہی تھیں کہ چلو کوچ کرو واپس چلو۔ ایک عجیب بات میں نے یہ بھی دیکھی کہ وہ خطرناک ہوا جو دیگیں الٹ دیتی تھی وہ صرف ان کے لشکر کے احاطہٰ تک ہی تھی واللہ اس سے ایک بالشت بھر باہر نہ تھی۔ میں نے دیکھا کہ پتھر اڑ اڑ کر ان پر گرتے تھے۔

جب میں واپس چلا ہوں تو میں نے دیکھا کہ تقریباً بیس سوار ہیں جو عمامے باندھے ہوئے ہیں انہوں نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفایت کر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو مات دی۔ [دلائل النبوۃ للبیهقی:450/3:حسن] ‏‏‏‏

اس میں یہ بھی بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت میں داخل تھا کہ جب کبھی کوئی گھبراہٹ اور دقت کا وقت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کر دیتے ۔ [سنن ابوداود:1319، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی اسی وقت یہ آیت اتری۔

پس آیت میں نیچے کی طرف سے آنے والوں سے مراد بنو قریظہ ہیں۔ شدت خوف اور سخت گھبراہٹ سے آنکھیں الٹ گئی تھیں اور دل حلقوم تک پہنچ گئے تھے اور طرح طرح کے گمان ہو رہے تھے یہاں تک کہ بعض منافقوں نے سمجھ لیا کہ اب کی لڑائی میں کافر غالب آ جائیں گے عام منافقوں کا تو پوچھنا ہی کیا ہے؟ معتب بن قشیر کہنے لگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیں کہہ رہے تھے کہ ہم قیصر وکسریٰ کے خزانوں کے مالک بنیں گے اور یہاں حالت یہ ہے کہ پاخانے کو جانا بھی دو بھر ہو رہا ہے۔ یہ مختلف گمان مختلف لوگوں کے تھے مسلمان تو یقین کرتے تھے کہ غلبہ ہمارا ہی ہے۔

جیسا کہ فرمان ہے «وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا» ‏‏‏‏ [33-الأحزاب:22] ‏‏‏‏، لیکن منافقین کہتے تھے کہ اب کی مرتبہ سارے مسلمان مع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دئیے جائیں گے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم نے عین اس گھبراہٹ اور پریشانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمیں اس سے بچاؤ کی کوئی تلقین کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دعا مانگو «اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا» اللہ ہماری پردہ پوشی کر اللہ ہمارے خوف ڈر کو امن وامان سے بدل دے ۔ ادھر مسلمانوں کی یہ دعائیں بلند ہوئیں ادھر اللہ کا لشکر ہواؤں کی شکل میں آیا اور کافروں کا تیا پانچا کر دیا، «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔ [مسند احمد:3/3:اسنادہ ضعیف] ‏‏‏‏
6974



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.