تفسير ابن كثير



سورۃ الأحزاب

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا[50]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے نبی! بے شک ہم نے تیرے لیے تیری بیویاں حلال کر دیں جن کا تو نے مہر دیا ہے اور وہ عورتیں جن کا مالک تیرا دایاں ہاتھ بنا ہے، اس (غنیمت) میں سے جو اللہ تجھ پر لوٹا کر لایا ہے اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں، جنھوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مومن عورت اگر وہ اپنا آپ نبی کو ہبہ کر دے، اگر نبی چاہے کہ اسے نکاح میں لے لے۔ یہ خاص تیرے لیے ہے، مومنوں کے لیے نہیں۔ بے شک ہم نے جان لیا جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور ان عورتوں کے بارے میں فرض کیا جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں، تاکہ تجھ پر کوئی تنگی نہ ہو اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [50]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے نبی! ہم نے تیرے لئے تیری وه بیویاں حلال کر دی ہیں جنہوں تو ان کا مہر دے چکا ہے اور وه لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خاﻻؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وه باایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کردے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے، یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں، ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں (احکام) مقرر کر رکھے ہیں، یہ اس لئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے اور بڑے رحم واﻻ ہے [50]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اے پیغمبر ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور کوئی مومن عورت اگر اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہے لیکن) یہ اجازت (اے محمدﷺ) خاص تم ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جو (مہر واجب الادا) مقرر کردیا ہے ہم کو معلوم ہے (یہ) اس لئے (کیا گیا ہے) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے [50]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 50،

حق مہر اور بصورت علیحدگی کے احکامات ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جن بیویوں کو مہر ادا کیا ہے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال ہیں “۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا جس کے پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ ہاں ام المؤمنین حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا کا مہر نجاشی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا۔ اور اسی طرح ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کا مہر صرف ان کی آزادی تھی۔ خیبر کے قیدیوں میں آپ رضی اللہ عنہا بھی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا اور اور اسی آزادی کو مہر قرار دیا اور نکاح کر لیا، اور ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا بنت حارث مصطلقیہ نے جتنی رقم پر مکاتبہ کیا تھا وہ پوری رقم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کو ادا کر کے ان سے عقد باندھا تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات پر اپنی رضا مندی نازل فرمائے۔

اسی طرح جو لونڈیاں غنیمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں آئیں وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال ہیں۔ صفیہ رضی اللہ عنہا اور جویریہ رضی اللہ عنہا کے مالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگئے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ ریحانہ بنت شمعون نصریہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آئی تھیں۔ ماریہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرزند بھی ہوا۔ جن کا نام ابراہیم رضی اللہ عنہ تھا۔

چونکہ نکاح کے بارے میں نصرانیوں نے افراط اور یہودیوں نے تفریط سے کام لیا تھا اس لیے اس عدل و انصاف والی سہل اور صاف شریعت نے درمیانہ راہ حق کو ظاہر کر دیا۔ نصرانی تو سات پشتوں تک جس عورت مرد کا نسب نہ ملتا ہو، ان کا نکاح جائز جانتے تھے اور یہودی بہن اور بھائی کی لڑکی سے بھی نکاح کر لیتے تھے۔ پس اسلام نے بھانجی بھتیجی سے نکاح کرنے کو روکا۔ اور چچا کی لڑکی پھوپھی کی لڑکی ماموں کی لڑکی اور خالہ کی لڑکی سے نکاح کو مباح قرار دیا۔

اس آیت کے الفاظ کی خوبی پر نظر ڈالئے کہ عم اور خال چچا اور ماموں کے لفظ کو تو واحد لائے اور عمات اور خلات یعنی پھوپھی اور خالہ کے لفظ کو جمع لائے۔ جس میں مردوں کی ایک قسم کی فضیلت عورتوں پر ثابت ہو رہی ہے۔

جیسے «اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ» [2-البقرة:257] ‏‏‏‏ اور جیسے «وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ» [6-الأنعام:1] ‏‏‏‏ یہاں بھی چونکہ ظلمات اور نور یعنی اندھیرے اور اجالے کا ذکر تھا اور اجالے کو اندھیرے پر فضیلت ہے اس لیے وہ لفظ ظلمات جمع لائے، اور لفظ نور مفرد لائے، اس کی اور بھی بہت سی نظیریں دی جا سکتی ہیں۔
7066

پھر فرمایا ” جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے “۔ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگا آیا تو میں نے اپنی معذوری ظاہر کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کر لیا، اور یہ آیت اتری میں ہجرت کرنے والیوں میں نہ تھی بلکہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والیوں میں تھی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي:3214، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

مفسرین نے بھی یہی کہا ہے کہ مراد ہے کہ جنہوں نے مدینے کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ہو۔ قتادہ رحمہ اللہ سے ایک روایت میں اس سے مراد اسلام لانا بھی مروی ہے۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَاللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ» ہے۔ پھر فرمایا ” اور وہ مومنہ عورت جو اپنا نفس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں، تو بغیر مہر دیے اسے نکاح میں لا سکتے ہیں “۔ پس یہ حکم دو شرطوں کے ساتھ ہے جیسے آیت «وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَان اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ هُوَ رَبُّكُمْ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ» [11-ھود:34] ‏‏‏‏ میں۔ یعنی ” نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں اگر میں تمہیں نصیحت کرنا چاہوں اور اگر اللہ تمہیں اس نصیحت سے مفید کرنا نہ چاہے تو میری نصیحت تمہیں کوئی نفع نہیں دے سکتی “۔
7067

اور جیسے موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان میں «يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ» [10-یونس:84] ‏‏‏‏ یعنی ” اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو، اور اگر تم مسلمان ہو گئے ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے “۔

پس جیسے ان آیتوں میں دو دو شرائط ہیں اسی طرح اس آیت میں بھی دو شرائط ہیں۔ ایک تو اس کا اپنا نفس ہبہ کرنا دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اسے اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کرنا۔

مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں اپنا نفس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہیں۔ تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نکاح کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو میرے نکاح میں دے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس کچھ ہے؟ جو انہیں مہر میں دیں؟ جواب دیا کہ اس تہمد کی سوا اور کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اگر تم انہیں دے دو گے تو خود بغیر تہمد کے رہ جاؤ گے کچھ اور تلاش کرو ۔ اس نے کہا میں اور کچھ نہیں پاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تلاش تو کرو گو لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے ۔ انہوں نے ہر چند دیکھ بھال کی لیکن کچھ نہ پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کی کچھ سورتیں بھی تمہیں یاد ہیں؟ اس نے کہا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس انہی سورتوں پر میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا ۔ [صحیح بخاری:2310] ‏‏‏‏ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب یہ واقعہ بیان کرنے لگے تو ان کی صاحبزادی بھی سن رہی تھیں۔ کہنے لگیں اس عورت میں بہت ہی کم حیاء تھی۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم سے وہ بہتر تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی رغبت کر رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا نفس پیش کر رہی تھیں ۔ [صحیح بخاری:5120] ‏‏‏‏
7068

مسند احمد میں ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنی بیٹی کی بہت سی تعریفیں کرکے کہنے لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کرلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا اور وہ پھر بھی تعریف کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ وہ کبھی وہ بیمار پڑیں نہ سر میں درد ہوا یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ۔ [مسند احمد:155/3:ضعیف] ‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی بیوی صاحبہ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھیں ۔ [بیهقی فی السنن الکبری:55/7] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے یہ قبلہ بنو سلیم میں سے تھیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23/22:] ‏‏‏‏ اور روایت میں ہے یہ بڑی نیک بخت عورت تھیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23/22:] ‏‏‏‏ ممکن ہے ام سلیم ہی خولہ ہوں رضی اللہ عنہا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری کوئی عورت ہوں۔

ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ عورتوں سے نکاح کیا جن میں سے چھ تو قریشی تھیں۔ خدیجہ، عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہن اجمعین اور تین بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلے میں سے تھیں اور دو عورتیں قبیلہ بنوہلال بن عامر میں سے تھیں اور میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا، یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس رسول اللہ کوہبہ کیا تھا اور زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی۔ اور ایک عورت بنو ابی بکرین کلاب سے۔ یہ وہی ہے جس نے دنیا کو اختیار کیا تھا اور بنو جون میں سے ایک عورت جس نے پناہ طلب کی تھی، اور ایک عورت اسدیہ جن کا نام زینب بنت جحش ہے رضی اللہ عنہا۔ دو کنزیں تھیں۔ صفیہ بنت حی بن اخطب اور جویریہ بنت حارث بن عمرو بن مصطلق خزاعیہ ۔ [ابن ابی شیبة:270/5:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا تھیں لیکن اس میں انقطاع ہے۔ اور یہ روایت مرسل ہے۔ یہ مشہور بات ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی، یہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا تھیں، فبیلہ انصار میں سے تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی انتقال کر گئیں۔ رضی اللہ عنہا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے نفس کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا۔

چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر غیرت کیا کرتی تھی جو اپنا نفس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں اور مجھے بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ عورتیں اپنا نفس ہبہ کرتی ہیں۔ جب یہ آیت اتری کہ «تُرْجِيْ مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَان اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا» [33-الأحزاب:51] ‏‏‏‏، ” تو ان میں سے جسے چاہے اس سے نہ کر اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے اور جن سے تو نے یکسوئی کر لی ہے انہیں بھی اگر تم لے آؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں “۔ تو میں نے کہا بس اب تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب وسعت و کشادگی کردی ۔ [صحیح بخاری:1464] ‏‏‏‏
7069

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کوئی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھی جس نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہو ۔

یونس بن بکیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ مباح تھا کہ جو عورت اپنے تئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے گھر میں رکھ لیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا نہیں۔ کیونکہ یہ امر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر رکھا گیا تھا۔ یہ بات کسی اور کے لیے جائز نہیں ہاں مہر ادا کر دے تو بیشک جائز ہے۔‏‏‏‏

چنانچہ بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں جنہوں نے اپنا نفس سونپ دیا تھا جب ان کے شوہر انتقال کر گئے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی اور عورتوں کے مثل انہیں مہر دیا جائے۔ جس طرح موت مہر کو مقرر کر دیتی ہے اسی طرح صرف دخول سے بھی مہر واجب ہو جاتا ہے۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے مستثنیٰ تھے۔ ایسی عورتوں کو کچھ دینا آپ پر واجب نہ تھا گو اسے شرف بھی حاصل ہو چکا ہو۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر مہر کے اور بغیر ولی کے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لینے کا اختیار تھا جیسا کہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے قصے میں ہے۔
7070

حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو بغیر ولی اور بغیر مہر کے کسی کے نکاح میں دیدے۔ ہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تھا۔‏‏‏‏

” اور مومنوں پر جو ہم نے مقرر کر دیا ہے اسے ہم خوب جانتے ہیں “ یعنی وہ چار سے زیادہ بیویاں ایک ساتھ رکھ نہیں سکتے۔ ہاں ان کے علاوہ لونڈیاں رکھ سکتے ہیں۔ اور ان کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔

اسی طرح ولی کی مہر کی گواہوں کی بھی شرط ہے۔ پس امت کا تو یہ حکم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی پابندیاں نہیں۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حرج نہ ہو۔ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے۔
7071



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.