تفسير ابن كثير



سورۃ الأحزاب

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا[57] وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا[58]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا۔ [57] اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیف دیتے ہیں، بغیر کسی گناہ کے جو انھوں نے کمایا ہو تو یقینا انھوں نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔ [58]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے [57] اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں [58]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر خدا دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے [57] اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا [58]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 57، 58،

ملعون و معذب لوگ ٭٭

جو لوگ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کر کے اس کے روکے ہوئے کاموں سے نہ رک کر اس کی نافرمانیوں پر جم کر اسے ناراض کر رہے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے طرح طرح کے بہتان باندھتے ہیں وہ ملعون اور معذب ہیں۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد تصویریں بنانے والے ہیں۔

بخاری و مسلم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں میں ہی دن رات کا تغیر و تبدل کر رہا ہوں “ ۔ [صحیح بخاری:4826] ‏‏‏‏

مطلب یہ ہے کہ جاہلیت والے کہا کرتے تھے ہائے زمانے کی ہلاکت اس نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور یوں کیا۔ پس اللہ کے افعال کو زمانے کی طرف منسوب کر کے پھر زمانے کو برا کہتے تھے گویا افعال کے فاعل یعنی خود اللہ کو برا کہتے تھے۔

سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا تو اس پر بھی بعض لوگوں نے باتیں بنانا شروع کی تھیں۔ بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ آیت اس بارے میں اتری۔ آیت عام ہے کسی طرح بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دے وہ اس آیت کے ماتحت ملعون اور معذب ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دینی گویا اللہ کو ایذاء دینی ہے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت عین اطاعت الٰہی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں دیکھو اللہ کو بیچ میں رکھ کر تم سے کہتا ہوں کہ میرے اصحاب رضی اللہ عنہم کو میرے بعد نشانہ نہ بنا لینا میری محبت کی وجہ سے ان سے بھی محبت رکھنا ان سے بغض و بیر رکھنے والا مجھ سے دشمنی کرنے والا ہے۔ انہیں جس نے ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی یقین مانو کہ اللہ اس کی بھوسی اڑا دے گا ۔ [سنن ترمذي:3862،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے۔

جو لوگ ایمانداروں کی طرف ان برائیوں کو منسوب کرتے ہیں۔ جن سے وہ بری ہیں وہ بڑے بہتان باز اور زبردست گناہ گار ہیں۔ اس وعید میں سب سے پہلے تو کفار داخل ہیں۔
7113

پھر رافضی شیعہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم پر عیب گیری کرتے ہیں اور اللہ نے جن کی تعریفیں کی ہیں یہ انہیں برا کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ ” وہ انصار و مہاجرین سے خوش ہے “۔

قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کی مدح و ستائش موجود ہے۔ لیکن یہ بے خبر کند ذہن انہیں برا کہتے ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور ان میں وہ باتیں بتاتے ہیں جن سے وہ بالکل الگ ہیں۔ حق یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کے دل اوندھے ہو گئے ہیں اس لیے ان کی زبانیں بھی الٹی چلتی ہیں۔ قابل مدح لوگوں کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت والوں کی تعریفیں کرتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تیرا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جسے اگر وہ سنے تو اسے برا معلوم ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اگر وہ بات اس میں ہو تب؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبھی تو غیبت ہے ورنہ بہتان ہے ۔ [سنن ابوداود:4874،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے سوال کیا کہ سب سے بڑی سود خوری کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ جانے اور اللہ کا رسول۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا سود اللہ کے نزدیک کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا» کی تلاوت فرمائی ۔ [شعب الإيمان:393/4] ‏‏‏‏
7114



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.