تفسير ابن كثير



سورۃ سبأ

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ[23]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور نہ سفارش اس کے ہاں نفع دیتی ہے مگر جس کے لیے وہ اجازت دے، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں تمھارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں حق (فرمایا) اور وہی سب سے بلند، بہت بڑا ہے۔ [23]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہوجائے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پرودگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وه بلند وباﻻ اور بہت بڑا ہے [23]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور خدا کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے۔ (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے [23]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 23،

اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی ٭٭

اس کی عظمت و کبریائی عزت و بڑائی ایسی ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے بھی لب ہلا سکے۔

جیسے فرمان ہے «مَن ذَا الَّذي يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ» [2-البقرة:255] ‏‏‏‏ ” کون ہے؟ جو اس کے سامنے کسی کی شفاعت بغیر اس کی رضا مندی کے بغیر کر سکے “

اور آیت میں ہے «وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَـيْــــًٔا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَاءُ وَيَرْضٰى» [53-النجم:26] ‏‏‏‏ الخ، یعنی ” آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے لب ہلا نہیں سکتے مگر جس کے لیے اللہ اپنی رضا مندی سے اجازت دے دے۔ “

ایک اور جگہ فرمان ہے «وَلَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ» [21-الأنبياء:28] ‏‏‏‏ الخ، ” وہ لوگ صرف ان کی شفاعت کر سکتے ہیں جن کے لیے اللہ کی رضا مندی ہو وہ تو خود ہی اس کے خوف سے تھرا رہے ہیں۔ “

تمام اولاد آدم کے سردار سب سے بڑے شفیع اور سفارشی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لیے تشریف لے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ آئے اور مخلوق کے فیصلے کرے اس وقت کی نسبت آپ فرماتے ہیں میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا اللہ ہی جانتا ہے کہ کب تک سجدے میں پڑا رہوں گا اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا۔ کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا سر اٹھایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی جائے گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جائے گا۔ آپ شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔ [صحیح بخاری:7410] ‏‏‏‏
7188

رب کی عظمت کا ایک مقام بیان ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی وحی میں کلام کرتا ہے اور آسمانوں کے مقرب فرشتے اسے سنتے ہیں تو ہیبت سے کانپ اٹھتے ہیں اور غشی والے کی طرح ہو جاتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ ہٹ جاتی ہے۔

«‏‏‏‏فزع» ‏‏‏‏ کی دوسری قرأت «‏‏‏‏فزغ» ‏‏‏‏ بھی آئی ہے مطلب دونوں کا ایک ہے۔ تو اب آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ اس وقت رب کا کیا حکم نازل ہوا؟ پس اہل عرش اپنے پاس والوں کو وہ اپنے پاس والوں کو یونہی درجہ بدرجہ حکم پہنچا دیتے ہیں۔ بلا کم و کاست ٹھیک ٹھیک اسی طرح پہنچا دیتے ہیں۔

ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب سکرات کا وقت آتا ہے۔ اس وقت مشرک یہ کہتے ہیں اور قیامت کے دن بھی جب اپنی غفلت سے چونکیں گے اور ہوش و حواس قائم ہو جائیں گے اس وقت یہ کہیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب ملے گا کہ حق فرمایا، حق فرمایا اور جس چیز سے دنیا میں بےفکر تھے آج اس کے سامنے پیش کر دی جائے گی۔ تو دلوں سے گھبراہٹ دور کئے جانے کے یہ معنی ہوئے کہ جب آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا جائے گا اس وقت سب شک و تکذیب الگ ہو جائیں گے۔ شیطانی وساوس دور ہو جائیں گے اس وقت رب کے وعدوں کی حقانیت تسلیم کریں گے اور اس کی بلندی اور بڑائی کے قائل ہوں گے۔ پس نہ تو موت کے وقت کا اقرار نفع دے نہ قیامت کے میدان کا اقرار فائدہ پہنچائے لیکن امام ابن جریر رحمہ اللہ کے نزدیک پہلی تفسیر ہی راجح ہے یعنی مراد اس سے فرشتے ہیں۔ اور یہی ٹھیک ہے اور اس کی تائید احادیث و آثار سے بھی ہوتی ہے۔
7189

صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ آسمان میں کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں اور رب کا کلام ایسا واقع ہوتا ہے جیسے اس زنجیر کی آواز جو پتھر پر بجائی جاتی ہو جب ہیبت کم ہو جاتی ہے۔ تو پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا؟ جواب ملتا ہے کہ جو فرمایا حق ہے اور وہ اعلی و کبیر ہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جو جنات فرشتوں کی باتیں سننے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں اور جو تہہ بہ تہہ ایک دوسروں کے اوپر ہیں وہ کوئی کلمہ سن لیتے ہیں اوپر والا نیچے والے کو وہ اپنے سے نیچے والے کو سنا دیتا ہے اور وہ کاہنوں کے کانوں تک پہنچا دیتے ہیں ان کے پیچھے فوراً ان کے جلانے کو آگ کا شعلہ لپکتا ہے لیکن کبھی کبھی تو وہ اس کے آنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو پہنچا دیتا ہے اور کبھی پہنچانے سے پہلے ہی جلا دیا جاتا ہے۔ کاہن اس ایک کلمے کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلاتا ہے۔ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ اس کے مرید بن جاتے ہیں کہ دیکھو یہ بات اس کے کہنے کے مطابق ہی ہوئی۔ [صحیح بخاری:4701] ‏‏‏‏
7190

مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور زبردست روشنی ہو گئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ جاہلیت میں تمہارا خیال ان ستاروں کے ٹوٹنے کی نسبت کیا تھا؟ انہوں نے کہا ہم اس موقعہ پر سمجھتے تھے کہ یا تو کوئی بہت بڑا آدمی پیدا ہوا یا مرا۔ زہری رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ کیا جاہلیت کے زمانے میں بھی ستارے جھڑتے تھے؟ کہا ہاں لیکن کم۔ آپ کی بعثت کے زمانے سے ان میں بہت زیادتی ہو گئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو! انہیں کسی کی موت و حیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب تبارک و تعالیٰ کسی امر کا آسمانوں میں فیصلہ کرتا ہے تو حاملان عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں پھر ساتویں آسمان والے پھر چھٹے آسمان والے یہاں تک کہ یہ تسبیح آسمان دنیا تک پہنچتی ہے۔ پھر عرش کے آس پاس کے فرشتے عرش کو اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ وہ انہیں بتاتے ہیں پھر ہر نیچے والا اوپر والے سے دریافت کرتا ہے اور وہ اسے بتاتا ہے یہاں تک کہ آسمان اول والوں کو خبر پہنچتی ہے۔ کبھی اچک لے جانے والے جنات اسے سن لیتے ہیں تو ان پر یہ ستارے جھڑتے ہیں تاہم جو بات اللہ کو پہنچانی منظور ہوتی ہے اسے وہ لے اڑتے ہیں اور اس کے ساتھ بہت کچھ باطل اور جھوٹ ملا کر لوگوں میں شہرت دیتے ہیں۔ [صحیح مسلم:2229] ‏‏‏‏
7191

no t(fseer
7192

ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی امر کی وحی کرتا ہے تو آسمان مارے خوف سے کپکپا اٹھتے ہیں اور فرشتے ہیبت زدہ ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام سر اٹھاتے ہیں اور اللہ کا فرمان سنتے ہیں پھر ان کی زبانی فرشتے سنتے ہیں اور وہ کہتے جاتے ہیں کہ اللہ نے حق فرمایا وہ بلندی اور بڑائی والا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا امین فرشتہ جس کی طرف ہو اسے پہنچا دیتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ اس وحی کا ذکر ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبیوں کے نہ ہونے کے زمانے میں بند ہو کر پھر ابتداء ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ابتدائی وحی کے بھی اس آیت کے تحت میں داخل ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن آیت اس کو اور سب کو شامل ہے۔
7193



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.