تفسير ابن كثير



سورۃ سبأ

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ مَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ[47] قُلْ إِنَّ رَبِّي يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ[48] قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ[49] قُلْ إِنْ ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَى نَفْسِي وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ[50]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ میں نے تم سے جو بھی اجرت مانگی ہے تو وہ تمھاری ہوئی۔ میری اجرت تو اللہ ہی پر ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ [47] کہہ بے شک میرا رب (دل میں) حق ڈالتا ہے، سب غیبوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔ [48] کہہ دے حق آگیا اور باطل نہ پہلی دفعہ کچھ کرتا ہے اور نہ دوبارہ کرتا ہے۔ [49] کہہ دے اگر میں گمراہ ہوا تو اپنی جان ہی پر گمراہ ہوں گا اور اگر میں نے ہدایت پائی تو اسی کی وجہ سے جو میرا رب میری طرف وحی بھیجتا ہے، یقینا وہ سب کچھ سننے والا، قریب ہے۔ [50]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کہہ دیجیئے! کہ جو بدلہ میں تم سے مانگوں وه تمہارے لئے ہے میرا بدلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے۔ وه ہر چیز سے باخبر (اور مطلع) ہے [47] کہہ دیجیئے! کہ میرا رب حق (سچی وحی) نازل فرماتا ہے وه ہر غیب کا جاننے واﻻ ہے [48] کہہ دیجیئے کہ حق آچکا باطل نہ تو پہلے کچھ کرسکا ہے اور نہ کرسکے گا [49] کہہ دیجیئے کہ اگر میں بہک جاؤں تو میرے بہکنے (کا وبال) مجھ پر ہی ہے اور اگر میں راه ہدایت پر ہوں تو بہ سبب اس وحی کے جو میرا پروردگار مجھے کرتا ہے وه بڑا ہی سننے واﻻ اور بہت ہی قریب ہے [50]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہہ دو کہ میں نے تم سے کچھ صلہ مانگا ہو تو وہ تم ہی کو (مبارک رہے) ۔ میرا صلہ خدا ہی کے ذمے ہے۔ اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے [47] کہہ دو کہ میرا پروردگار اوپر سے حق اُتارتا ہے (اور وہ) غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے [48] کہہ دو کہ حق آچکا اور (معبود) باطل نہ تو پہلی بار پیدا کرسکتا ہے اور نہ دوبارہ پیدا کرے گا [49] کہہ دو کہ اگر میں گمراہ ہوں تو میری گمراہی کا ضرر مجھی کو ہے۔ اور اگر ہدایت پر ہوں تو یہ اس کا طفیل ہے جو میرا پروردگار میری طرف وحی بھیجتا ہے۔ بےشک وہ سننے والا (اور) نزدیک ہے [50]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 47، 48، 49، 50،

مشرکین کو دعوت اصلاح ٭٭

حکم ہو رہا ہے کہ مشرکوں سے فرما دیجئے کہ میں جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں تمہیں احکام دینی پہنچتا رہا ہوں وعظ و نصیحت کرتا ہوں اس پر میں تم سے کسی بدلے کا طالب نہیں ہوں۔ بدلہ تو اللہ ہی دے گا جو تمام چیزوں کی حقیقت سے مطلع ہے۔ میری تمہاری حالت اس پر خوب روشن ہے۔

پھر جو فرمایا اسی طرح کی آیت «رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ» [40-غافر:15] ‏‏‏‏ الخ، ہے یعنی ” اللہ تعالیٰ اپنے فرمان سے جبرائیل علیہ السلام کو جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کے ساتھ بھیجتا ہے “ وہ حق کے ساتھ فرشتہ اتارتا ہے۔ وہ علام الغیوب ہے اس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی نہیں۔ اللہ کی طرف سے حق اور مبارک شریعت آ چکی ہے۔ باطل پراگندہ بودار ہو کر برباد ہو گیا۔

جیسے فرمان ہے «بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَـكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ» [21-الأنبياء:18] ‏‏‏‏ ” ہم باطل پر حق کو نازل فرما کر باطل کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں اور وہ چکنا چور ہو جاتا ہے۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو وہاں کے بتوں کو اپنی کمان کی لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور زبان سے فرماتے جاتے تھے «وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» [17-الإسراء:81] ‏‏‏‏ ” حق آ گیا باطل مٹ گیا وہ تھا ہی مٹنے والا۔ “ [صحیح بخاری:4720] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏بخاری، مسلم)

باطل کا اور ناحق کا دباؤ سب ختم ہو گیا۔ بعض مفسرین سے مروی ہے کہ مراد یہاں باطل سے ابلیس ہے۔ یعنی نہ اس نے کسی کو پہلے پیدا کیا نہ آئندہ کر سکے نہ مردے کو زندہ کر سکے نہ اسے کوئی اور ایسی قدرت حاصل ہے بات تو یہ بھی سچی ہے لیکن یہاں یہ مراد نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
7227

پھر جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر سب کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی میں وہی سراسر حق ہے اور ہدایت و بیان و رشد ہے۔ گمراہ ہونے والے آپ ہی بگڑ رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ سیدنا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب کہ مفوضہ کا مسئلہ دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہے۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور قریب ہے۔ پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب مجیب ہے۔ [صحیح بخاری:2992] ‏‏‏‏
7228



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.