تفسير ابن كثير



سورۃ يس

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ[63] اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ[64] الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ[65] وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ[66] وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ[67]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یہ ہے وہ جہنم جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔ [63] آج اس میں داخل ہو جاؤ، اس کے بدلے جو تم کفر کیا کرتے تھے۔ [64] آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اوران کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔ [65] اور اگر ہم چاہیں تو یقینا ان کی آنکھیں مٹا دیں، پھر وہ راستے کی طرف بڑھیں تو کیسے دیکھیں گے؟ [66] اور اگر ہم چاہیں تو یقینا ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں بدل دیں، پھر نہ وہ (آگے) چل سکیں اور نہ واپس آئیں۔ [67]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یہی وه دوزخ ہے جس کا تمہیں وعده دیا جاتا تھا [63] اپنے کفر کا بدلہ پانے کے لئے آج اس میں داخل ہوجاؤ [64] ہم آج کے دن ان کے منھ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وه کرتے تھے [65] اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں بے نور کر دیتے پھر یہ رستے کی طرف دوڑتے پھرتے لیکن انہیں کیسے دکھائی دیتا؟ [66] اور اگر ہم چاہتے تو ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں مسﺦ کر دیتے پھر نہ وه چل پھر سکتے اور نہ لوٹ سکتے [67]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] یہی وہ جہنم ہے جس کی تمہیں خبر دی جاتی ہے [63] (سو) جو تم کفر کرتے رہے ہو اس کے بدلے آج اس میں داخل ہوجاؤ [64] آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کردیں گے اور ان کے پاؤں (اس کی) گواہی دیں گے [65] اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر (اندھا کر) دیں۔ پھر یہ رستے کو دوڑیں تو کہاں دیکھ سکیں گے [66] اور اگر ہم چاہیں تو ان کی جگہ پر ان کی صورتیں بدل دیں پھر وہاں سے نہ آگے جاسکیں اور نہ (پیچھے) لوٹ سکیں [67]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 63، 64، 65، 66، 67،

اعضاء کی گواہی ٭٭

جہنم بھڑکتی ہوئی اور شعلے مارتی ہوئی چیختی ہوئی اور چلاتی ہوئی سامنے ہو گی اور کفار سے کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا ذکر میرے رسول کیا کرتے تھے جس سے وہ ڈرایا کرتے تھے اور تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ لو اب اپنے اس کفر کا مزہ چکھو اٹھو اس میں کود پڑو، چنانچہ اور آیت میں ہے «يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا هَـٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ هَـٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ» [ 52-الطور: 13 - 15 ] ‏‏‏‏، جس دن یہ جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے اور کہا جائے گا یہی وہ دوزخ ہے جس کا انکار کرتے رہے ہو۔ بتاؤ تو یہ جادو ہے؟ یا تم اندھے ہو گئے ہو؟ قیامت والے دن جب یہ کفار اور منافقین اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور اس پر قسمیں کھا لیں گے تو اللہ ان کی زبانوں کو بند کر دے گا اور ان کے بدن کے اعضاء سچی سچی گواہی دینا شروع کر دیں گے۔
7402

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ یکایک ہنسے اور اس قدر ہنسے کہ مسوڑھے کھل گئے پھر ہم سے دریافت کرنے لگے کہ جانتے ہو میں کیوں ہنسا؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خوب جانتا ہے۔ فرمایا بندہ جو اپنے رب سے قیامت کے دن جھگڑا کرے گا اس پر۔ کہے گا کہ باری تعالیٰ کیا تو نے مجھے ظلم سے بچایا نہ تھا؟ اللہ فرمائے گا ہاں، تو یہ کہے گا بس پھر میں کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا۔ بس میرا اپنا بدن تو میرا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں۔ اللہ فرمائے گا اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ سہی اور میرے بزرگ فرشتے گواہ سہی۔ چنانچہ اسی وقت زبان پر مہر لگا دی جائے گی اور اعضائے بدن سے فرمایا جائے گا بولو تم خود گواہی دو کہ تم سے اس نے کیا کیا کام لیے؟ وہ صاف کھول کھول کر سچ سچ ایک ایک بات بتا دیں گے پھر اس کی زبان کھول دی جائے گی تو یہ اپنے بدن کے جوڑوں سے کہے گا تمہارا ستیاناس ہو جائے تم ہی میرے دشمن بن بیٹھے میں تو تمہارے ہی بچاؤ کی کوشش کر رہا تھا اور تمہارے ہی فائدے کے لیے حجت بازی کر رہا تھا۔ [صحیح مسلم:2969] ‏‏‏‏
7403

نسائی کی ایک اور حدیث میں ہے تمہیں اللہ کے سامنے بلایا جائے گا جبکہ زبان بند ہو گی سب سے پہلے رانوں اور ہتھیلیوں سے سوال ہو گا۔ [نسائی فی السنن الکبرٰی:11469] ‏‏‏‏

قیامت کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ پھر تیسرے موقعہ پر اس سے کہا جائے گا کہ تو کیا ہے؟ یہ کہے گا تیرا بندہ ہوں تجھ پر تیری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیری کتاب پر ایمان لایا تھا روزے نماز زکوٰۃ وغیرہ کا پابند تھا اور بھی بہت سی اپنی نیکیاں بیان کر جائے گا اس وقت اس سے کہا جائے گا، اچھا ٹھہر جا ہم گواہ لاتے ہیں یہ سوچتا ہی ہو گا کہ گواہی میں کون پیش کیا جائے گا؟ یکایک اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کی ران سے کہا جائے گا کہ تو گواہی دے، اب ران اور ہڈیاں اور گوشت بول پڑے گا اور اس منافق کے سارے نفاق کو اور تمام پوشیدہ اعمال کو کھول کر رکھ دے گا۔ یہ سب اس لیے ہو گا کہ پھر اس کی حجت باقی نہ رہے اور اس کا عذر ٹوٹ جائے۔ چونکہ رب اس پر ناراض تھا اس لیے اس سے سختی سے بازپرس ہوئی۔ [صحیح مسلم:2968] ‏‏‏‏
7404

ایک حدیث میں ہے منہ پر مہر لگنے کے بعد سب سے پہلے انسان کی بائیں ران بولے گی۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومن کو بلا کر اس کے گناہ اس کے سامنے پیش کر کے فرمائے گا، کہو یہ ٹھیک ہے؟ یہ کہے گا ہاں اللہ سب درست ہے بیشک مجھ سے یہ خطائیں سرزد ہوئی ہیں۔ اللہ فرمائے گا اچھا ہم نے سب بخش دیں، لیکن یہ گفتگو اس طرح ہو گی کہ کسی ایک کو بھی اس کا مطلق علم نہ ہو گا اس کا ایک گناہ بھی مخلوق میں سے کسی پر ظاہر نہ ہو گا۔ اب اس کی نیکیاں لائی جائیں گی اور انہیں کھول کھول کر ساری مخلوق کے سامنے جتا جتا کر رکھی جائیں گی۔
7405

[ اے ستار العیوب اے غفار الذنوب تو ہم گناہ گاروں کی پردہ پوشی کر اور ہم مجرموں سے در گزر فرما۔ اللہ اس دن ہمیں رسوا اور ذلیل نہ کر اور اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے۔ اے ذرہ نواز اللہ عزو جل! اپنی بےپایاں بخشش کی موسلا دھار بارش کا ایک قطرہ ادھر بھی برسا دے اور ہمارے تمام گناہوں کو دھو ڈال، پروردگار ایک نظر رحمت ادھر بھی، مالک الملک ہم بھی تیری چشم رحمت کے منتظر ہیں، اے غفور و رحیم اللہ کیا تیرے در سے بھی کوئی سوالی خالی جھولی لے کر ناامید ہو کر آج تک لوٹا ہے؟ رحم کر رحم کر رحم کر۔ اے مالک و خالق رحم کر اپنے انتقام سے بچا اپنے غصے سے نجات دے اپنی رحمتوں سے نواز دے اپنے عذابوں سے چھٹکارا دے اپنی جنت میں پہنچا دے، اپنے دیدار سے مشرف فرما۔ آمین آمین ] ‏‏‏‏۔

اور کافر و منافق کو بلایا جائے گا اس کے بد اعمال اس کے سامنے رکھے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہو یہ ٹھیک ہے؟ یہ صاف انکار کر جائے گا اور کڑکڑاتی ہوئی قسمیں کھانے لگے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ تیرے ان فرشتوں نے جھوٹی تحریر لکھی ہے میں نے ہرگز یہ گناہ نہیں کئے، فرشتہ کہے گا ہائیں ہائیں کیا کہہ رہا ہے؟ کیا فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں کام نہیں کیا؟ یہ کہے گا اللہ تیری عزت کی قسم محض جھوٹ ہے میں نے ہرگز نہیں کیا؟ اب اللہ تعالیٰ اس کی زبان بندی کر دے گا، غالباً سب سے پہلے اس کی دائیں ران اس کے خلاف شہادت دے گی، یہی مضمون اس آیت میں بیان ہو رہا ہے۔
7406

پھر فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو انہیں گمراہ کر دیتے اور پھر یہ کبھی ہدایت نہ حاصل کر سکتے۔ اگر ہم چاہتے ان کی آنکھیں اندھی کر دیتے تو یہ یونہی بھٹکتے پھرتے۔ ادھر ادھر راستے ٹٹولتے۔ حق کو نہ دیکھ سکتے، نہ صحیح راستے پر پہنچ سکتے اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ان کے مکانوں میں ہی مسخ کر دیتے ان کی صورتیں بدل دیتے انہیں ہلاک کر دیتے انہیں پتھر کے بنا دیتے، ان کی ٹانگیں توڑ دیتے۔ پھر تو نہ وہ چل سکتے یعنی آگے کو نہ وہ لوٹ سکتے یعنی پیچھے کو بلکہ بت کی طرح ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے، آگے پیچھے نہ ہو سکتے۔
7407



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.