تفسير ابن كثير



سورۃ يس

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ[79] الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ[80]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے انھیں وہ زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا خوب جاننے والا ہے۔ [79] وہ جس نے تمھارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی، پھر یکایک تم اس سے آگ جلا لیتے ہو۔ [80]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وه زنده کرے گا جس نے انہیں اول مرتبہ پیدا کیا ہے، جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے واﻻ ہے [79] وہی جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو [80]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ اور وہ سب قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے [79] جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس (کی ٹہنیوں کو رگڑ کر ان) سے آگ نکالتے ہو [80]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 79، 80،

جس نے اول پیدا کیا وہی زندہ کرے گا ٭٭

اس کے جواب میں کہدو کہ اول رتبہ ان ہڈیوں کو جو اب گلی سڑی ہیں جس نے پیدا کیا وہی دوبارہ انہیں پیدا کرے گا۔ جہاں جہاں بھی یہ ہڈیاں ہوں وہ خوب جانتا ہے۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے عقبہ بن عمرو نے کہا آپ ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث سنائیے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص پر جب موت کی حالت طاری ہوئی تو اس نے اپنے وارثوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو تم بہت ساری لکڑیاں جمع کر کے میری لاش کو جلا کر خاک کر دینا پھر اسے سمندر میں بہا دینا، چنانچہ انہوں نے یہی کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کر کے جب اسے دوبارہ زندہ کیا تو اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ صرف تیرے ڈر سے، اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ چلتے چلتے یہ حدیث بیان فرمائی جسے میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنے کانوں سے سنا۔ [مسند احمد:383/5:] ‏‏‏‏

یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی بہت سے الفاظ سے مروی ہے، [صحیح بخاری:3479] ‏‏‏‏

ایک راویت میں ہے کہ اس نے کہا تھا میری راکھ کو ہوا کے رخ اڑا دینا کچھ تو ہوا میں کچھ دریا میں بہا دینا۔ سمندر نے بحکم اللہ جو راکھ اس میں تھی اسے جمع کر دیا اسی طرح ہوا نے بھی۔ پھر اللہ کے فرمان سے وہ کھڑا کر دیا گیا۔

پھر اپنی قدرت کے مشاہدے کے لیے اور بات کی دلیل قائم کرنے کے لیے کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے وہ مردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے، ہیت کو وہ منقلب کر سکتا ہے فرمایا کہ تم غور کرو کہ پانی میں درخت اگائے سرسبز شاداب ہرے بھرے پھل والے ہوئے، پھر وہ سوکھ گئے اور ان لکڑیوں سے میں نے آگ نکالی کہاں وہ تری اور ٹھنڈی کہاں یہ خشکی اور گرمی؟ پس مجھے کوئی چیز کرنی بھاری نہیں تر کو خشک کرنا خشک کو تر کرنا زندہ کو مردہ کرنا مردے کو زندگی دینا سب میرے بس کی بات ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مراد اس سے مرخ اور عفار کے درخت ہیں جو حجاز میں ہوتے ہیں ان کی سبز ٹہنیوں کو آپس میں رگڑنے سے چقماق کی طرح آگ نکلتی ہے۔

چنانچہ عرب میں ایک مشہور مثل ہے «لکل شجر ناروا استجدا المرخ والمفار حکماء» کا قول ہے کہ سوائے انگور کے درخت کے ہر درخت میں آگ ہے۔
7429



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.