تفسير ابن كثير



سورۃ الصافات

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ[6] وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ[7] لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ[8] دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ[9] إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ[10]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک ہم نے ہی آسمان دنیا کو ایک انوکھی زینت کے ساتھ آراستہ کیا، جو ستارے ہیں۔ [6] اور ہر سرکش شیطان سے خوب محفوظ کر نے کے لیے۔ [7] وہ اوپر کی مجلس کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور ہر طرف سے ان پر (شہاب)پھینکے جاتے ہیں۔ [8] بھگانے کے لیے اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔ [9] مگر جو کوئی اچانک اچک کر لے جائے تو ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ [10]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا [6] اور حفاﻇت کی سرکش شیطان سے [7] عالم باﻻ کے فرشتوں (کی باتوں) کو سننے کے لئے وه کان بھی نہیں لگا سکتے، بلکہ ہر طرف سے وه مارے جاتے ہیں [8] بھگانے کے لئے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے [9] مگر جو کوئی ایک آدھ بات اچک لے بھاگے تو (فوراً ہی) اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے [10]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بےشک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا [6] اور ہر شیطان سرکش سے اس کی حفاظت کی [7] کہ اوپر کی مجلس کی طرف کان نہ لگاسکیں اور ہر طرف سے (ان پر انگارے) پھینکے جاتے ہیں [8] (یعنی وہاں سے) نکال دینے کو اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے [9] ہاں جو کوئی (فرشتوں کی کسی بات کو) چوری سے جھپٹ لینا چاہتا ہے تو جلتا ہوا انگارہ ان کے پیچھے لگتا ہے [10]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 6، 7، 8، 9، 10،

شیاطین اور کاہن ٭٭

آسمان دنیا کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جو زینت دی گئی ہے اس کا بیان فرمایا۔ یہ اضافت کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور بدلیت کے ساتھ بھی معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہیں۔ اس کے ستاروں کی، اس کے سورج کی روشنی زمین کو جگمگادیتی ہے۔

جیسے اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاب السَّعِيْرِ» [67-الملك:5] ‏‏‏‏، ” ہم نے آسمان دنیا کو زینت دی ستاروں کے ساتھ، اور انہیں شیطانوں کے لیے شیطانوں کے رجم کا ذریعہ بنایا اور ہم نے ان کے لیے آگ سے جلا دینے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں “۔
7441

اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ وَحَفِظْنَاهَا مِن كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِينٌ» [15-الحجر:16-18] ‏‏‏‏ ” ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھب جانے والی چیز بنائی۔ اور ہر شیطان رجیم سے اسے محفوظ رکھا جو کوئی کسی بات کو لے اڑنا چاہتا ہے وہیں ایک تیز شعلہ اس کی طرف اترتا ہے۔ اور ہم نے آسمانوں کی حفاظت کی ہر سرکش شریر شیطان سے، اس کا بس نہیں کہ فرشتوں کی باتیں سنے، وہ جب یہ کرتا ہے تو ایک شعلہ لپکتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے “۔

یہ آسمانوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اللہ کی شریعت تقدیر کے امور کی کسی گفتگو کو وہ سن ہی نہیں سکتے۔ اس بارے کی حدیثیں ہم نے آیت «حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ» [34-سبأ:23] ‏‏‏‏، کی تفسیر میں بیان کر دی ہیں۔ جدھر سے بھی یہ آسمان پر چڑھنا چاہتے ہیں وہیں سے ان پر آتش بازی کی جاتی ہے۔ انہیں ہنکانے پست و ذلیل کرنے روکنے اور نہ آنے دینے کے لیے یہ سزا بیان کی ہے اور آخرت کے دائمی عذاب ابھی باقی ہیں، جو بڑے المناک درد ناک اور ہمیشگی والے ہوں گے۔

ہاں کبھی کسی جن نے کوئی کلمہ کسی فرشتے کی زبان سے سن لیا اور اسے اس نے اپنے نیچے والے سے کہدیا اور اس نے اپنے نیچے والے سے وہیں اس کے پیچھے ایک شعلہ لپکتا ہے کبھی تو وہ دوسرے کو پہنچائے اس سے پہلے ہی شعلہ اسے جلا ڈالتا ہے کبھی وہ دوسرے کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو کاہنوں کے کانوں تک شیاطین کے ذریعہ پہنچ جاتی ہیں۔ ثاقب سے مراد سخت تیز بہت زیادہ روشنی والا ہے۔
7442

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ شیاطین پہلے جا کر آسمانوں میں بیٹھتے تھے اور وہی سن لیتے تھے اس وقت ان پر تارے نہیں ٹوٹتے تھے یہ وہاں کی وحی سن کر زمین پر آ کر ایک کی دس دس کر کے کاہنوں کے کانوں میں پھونکتے تھے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی پھر شیطانوں کا آسمان پر جانا موقوف ہوا، اب یہ جاتے ہیں تو ان پر آگ کے شعلے پھینکے جاتے ہیں اور انہیں جلا دیا جاتا ہے، انہوں نے اس نو پیدا امر کی خبر جب ابلیس ملعون کو دی تو اس نے کہا کہ کسی اہم نئے کام کی وجہ سے اس قدر احتیاط و حفاظت کی گئی ہے۔

چنانچہ خبر رسانوں کی جماعتیں اس نے روئے زمین پر پھیلا دیں تو جو جماعت حجاز کی طرف گئی تھی اس نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز ادا کر رہے ہیں اس نے جا کر ابلیس کو یہ خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو تمہارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا۔

اس کی پوری تحقیق اللہ نے چاہا تو آیت «‏‏‏‏وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاء فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُهُبًا» [72-الجن:8] ‏‏‏‏، کی تفسیر میں آئے گی۔
7443



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.