تفسير ابن كثير



سورۃ ص

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ[4] أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ[5] وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ[6] مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ[7]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور انھوں نے اس پر تعجب کیا کہ ان کے پاس انھی میں سے ایک ڈرانے والا آیا اور کافروں نے کہا یہ ایک سخت جھوٹا جادوگر ہے۔ [4] کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا؟ بلاشبہ یہ یقینا بہت عجیب بات ہے۔ [5] اور ان کے سرکردہ لوگ چل کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو، یقیناً یہ تو ایسی بات ہے جس کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ [6] ہم نے یہ بات آخری ملت میں نہیں سنی، یہ تو محض بنائی ہوئی بات ہے۔ [7]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی میں سے ایک انہیں ڈرانے واﻻ آگیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے [4] کیا اس نےاتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے [5] ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو، یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے [6] ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی، کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے [7]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس ان ہی میں سے ہدایت کرنے والا آیا اور کافر کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر ہے جھوٹا [4] کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے [5] تو ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے (اور بولے) کہ چلو اور اپنے معبودوں (کی پوجا) پر قائم رہو۔ بےشک یہ ایسی بات ہے جس سے (تم پر شرف وفضلیت) مقصود ہے [6] یہ پچھلے مذہب میں ہم نے کبھی سنی ہی نہیں۔ یہ بالکل بنائی ہوئی بات ہے [7]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 4، 5، 6، 7،

مشرکین کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تعجب ٭٭

حضور علیہ السلام کی رسالت پر کفار کے حماقت آمیز تعجب کا اظہار ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے «اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ» ‏‏‏‏ [ 10- یونس: 2 ] ‏‏‏‏ کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ان میں سے ایک انسان کی طرف ہم نے وحی کی تاکہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور ایمانداروں کو اس بات کی خوشخبری سنا دے کہ اس کے پاس ان کے لیے بہترین لائحہ عمل ہے۔ کافر تو ہمارے رسول کو کھلا جادوگر کہنے لگے۔

یہیں پر یہ ذکر ہے کہ انہی میں سے انہی جیسے ایک انسان کے رسول بن کر آنے پر انہیں تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور کذاب ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر تعجب کے ساتھ ہی اللہ کی وحدانیت پر بھی انہیں تعجب معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اور سنو اتنے سارے معبودوں کے بدلے یہ تو کہتا ہے کہ اللہ ایک ہی ہے اور اس کا کوئی کسی طرح کا شریک ہی نہیں ان بیوقوفوں کو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی جس شرک و کفر کی عادت تھی اس کے خلاف آواز سن کر ان کے دل دکھنے اور رکنے لگے اور وہ توحید کو ایک انوکھی اور انجان چیز سمجھنے لگے۔ ان کے بڑوں اور سرداروں نے تکبر کے ساتھ منہ موڑتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے قدیمی مذہب پر جمے رہو۔ اس کی بات نہ مانو اور اپنے معبودوں کی عبادت کرتے رہو۔ یہ تو صرف اپنے مطلب کی باتیں کہتا ہے۔ یہ اس بہانے اپنی جما رہا ہے کہ یہ تمہارا سب کا بڑا بن جائے اور تم اس کے تابع فرمان ہو جاؤ۔
7665

ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ ایک بار قریشیوں کے شریف اور سردار رؤسا ایک مرتبہ جمع ہوئے ان میں ابوجہل بن ہشام عاص بن وائل اسود بن المطلب اسود بن عبد یغوث وغیرہ بھی تھے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چل کر آج ابوطالب سے آخری فیصلہ کر لیں وہ انصاف کے ساتھ ایک بات ہمارے ذمہ ڈال دے اور ایک اپنے بھتیجے کے ذمے۔ کیونکہ یہ اب انتہائی عمر کو پہنچ چکے ہیں چراغ سحری ہو رہے ہیں اگر مر گئے اور ان کے بعد ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی مصیبت پہنچائی تو عرب میں طعنہ دیں گے کہ بڈھے کی موجودگی تک تو کچھ نہ چلی اور ان کی موت کے بعد بہادری آ گئی۔ چنانچہ ایک آدمی بھیج کر ابوطالب سے اجازت مانگی ان کی اجازت پر سب گھر میں گئے اور کہا سنئے جناب! آپ ہمارے سردار ہیں بزرگ ہیں بڑے ہیں۔ ہم آپ کے بھتیجے سے اب بہت تنگ آ گئے ہیں آپ انصاف کے ساتھ ہم میں اور اس میں فیصلہ کر دیجئیے۔ دیکھئیے ہم آپ سے انصاف چاہتے ہیں وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں اور نہ ہم انہیں ستائیں وہ مختار ہیں جس کی چاہیں عبادت کریں لیکن ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں۔ ابوطالب نے آدمی بھیج کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا اور کہا جان پدر دیکھتے ہو آپ کی قوم کے سردار اور بزرگ سب جمع ہوئے ہیں اور آپ سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی توہین اور برائی کرنے سے باز آ جائیں اور یہ آپ کو آپ کے دین پر چلنے میں آزادی دے رہے ہیں۔
7666

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا جان کیا میں انہیں بہترین اور بڑی بھلائی کی طرف نہ بلاؤں؟ ابوطالب نے کہا وہ کیا ہے؟ فرمایا یہ ایک کلمہ کہدیں صرف اس کے کہنے کی وجہ سے سارا عرب ان کے ماتحت ہو جائے گا اور سارے عجم پر ان کی حکومت ہو جائے گی۔ ابوجہل ملعون نے سوال کیا کہ اچھا بتاؤ وہ ایسا کون سا کلمہ ہے؟ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو «لا الہ الا اللہ» بس یہ سننا تھا کہ شور و غل کر دیا اور کہنے لگے اس کے سوا جو تو مانگے ہم دینے کو تیار ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم سورج کو بھی لا کر میرے ہاتھ پر رکھ دو تو بھی تو تم سے اس کلمے کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ سارے کے سارے مارے غصے اور غضب کے بھنا کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے واللہ ہم تجھے اور تیرے اللہ کو گالیاں دیں گے جس نے تجھے یہ حکم دیا ہے۔ اب یہ چلے اور ان کے سردار یہ کہتے رہے کہ جاؤ اپنے دین پر اور اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے رہو۔ معلوم ہو گیا کہ اس شخص کا تو ارادہ ہی اور ہے یہ تو بڑا بننا چاہتا ہے۔ [ ابن ابی حاتم وغیرہ ] ‏‏‏‏
7667

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان کے بھاگ جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ ہی اس کلمے کو پڑھ لیجئے اس نے کہا نہیں میں تو اپنے باپ دادؤں اور قوم کے بڑوں کے دین پر ہی رہوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ «‏‏‏‏إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ» [ 28-القص: 56 ] ‏‏‏‏ جسے تو چاہے ہدایت نہیں کر سکتا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:29750:مرسل] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ اس وقت ابوطالب بیمار تھے اور اسی وجہ سے وہ مرا بھی۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس وقت ابوطالب کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ خالی تھی باقی تمام گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا تو ابوجہل خبیث نے خیال کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر اپنے چچا کے پاس بیٹھ گئے تو زیادہ اثر ڈال سکیں گے اس لیے یہ ملعون کود کر وہاں جا بیٹھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دروازہ کے پاس ہی بیٹھنا پڑا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک کلمہ کہنے کو کہا تو سب نے جواب دیا کہ ایک نہیں دس ہم سب منتظر ہیں فرمایئے وہ کیا کلمہ ہے؟ اور جب کلمہ توحید آپ کی زبانی سنا تو کپڑے جھاڑتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے لو اور سنو یہ تو سارے معبودوں کا ایک معبود بنا رہا ہے۔ اس پر یہ آیتیں، «بَل لَّمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ» [ 38-سورة ص: 8 ] ‏‏‏‏ تک، اتریں۔ امام ترمذی اس روایت کو حسن کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي:3232،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏
7668



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.