تفسير ابن كثير



سورۃ الزمر

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ[1] إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ[2] أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ[3] لَوْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَاصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ سُبْحَانَهُ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ[4]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ [1] بلاشبہ ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی، پس اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ تو دین کو اسی کے لیے خالص کرنے والا ہو۔ [2] خبردار! خالص دین صرف اللہ ہی کا حق ہے اوروہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا اور حمایتی بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں، اچھی طرح قریب کرنا۔ یقیناً اللہ ان کے درمیان اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا ہو، بہت ناشکرا ہو۔ [3] اگر اللہ چاہتا کہ (کسی کو) اولاد بنائے تو ان میں سے جنھیں وہ پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ضرور چن لیتا، وہ پاک ہے۔ وہ تو اللہ ہے، جو اکیلا ہے، بہت غلبے والا ہے۔ [4]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب باحکمت کی طرف سے ہے [1] یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے [2] خبردار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا (سچا) فیصلہ اللہ (خود) کرے گا۔ جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ راه نہیں دکھاتا۔ [3] اگر اللہ تعالیٰ کااراده اوﻻد ہی کا ہوتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا۔ (لیکن) وه تو پاک ہے، وه وہی اللہ تعالیٰ ہے یگانہ اور قوت واﻻ [4]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اس کتاب کا اُتارا جانا خدائے غالب (اور) حکمت والے کی طرف سے ہے [1] (اے پیغمبر) ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تو خدا کی عبادت کرو (یعنی) اس کی عبادت کو (شرک سے) خالص کرکے [2] دیکھو خالص عبادت خدا ہی کے لئے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنا دیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں خدا ان میں ان کا فیصلہ کر دے گا۔ بےشک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا۔ [3] اگر خدا کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا انتخاب کرلیتا۔ وہ پاک ہے وہی تو خدا یکتا (اور) غالب ہے [4]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4،

باطل عقائد کی تردید ٭٭

اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ” یہ قرآن عظیم اسی کا کلام ہے اور اسی کا اتارا ہوا ہے۔ اس کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں “۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّ‌وحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِ‌ينَ بِلِسَانٍ عَرَ‌بِيٍّ مُّبِينٍ» [26-الشعراء:195-192] ‏‏‏‏، ” یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترا ہے۔ تیرے دل پر اترا ہے تاکہ تو آگاہ کرنے والابن جائے۔ صاف فصیح عربی زبان میں ہے “

اور آیتوں میں ہے «إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِالذِّكْرِ‌ لَمَّا جَاءَهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ» [41-فصلت:41-42] ‏‏‏‏ ” یہ باعزت کتاب وہ ہے جس کے آگے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا یہ حکمتوں والی تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اتری ہے “۔

یہاں فرمایا کہ ” یہ کتاب بہت بڑے عزت والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے اتری ہے جو اپنے اقوال افعال شریعت تقدیر سب میں حکمتوں والا ہے۔ ہم نے تیری طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ تجھے چاہیئے کہ خود اللہ کی عبادتوں میں اور اس کی توحید میں مشغول رہ کر ساری دنیا کو اسی طرف بلا، کیونکہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت زیبا نہیں، وہ لاشریک ہے، وہ بے مثال ہے، اس کا شریک کوئی نہیں۔ دین خالص یعنی شہادت توحید کے لائق وہی ہے “۔
7778

پھر مشرکوں کا ناپاک عقیدہ بیان کیا کہ ” وہ فرشتوں کو اللہ کا مرقب جان کر ان کی خیالی تصویریں بنا کر ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے یہ سمجھ کر یہ اللہ کے لاڈلے ہیں، ہمیں جلدی اللہ کا مقرب بنا دیں گے۔ پھر تو ہماری روزیوں میں اور ہرچیز میں خوب برکت ہو جائے گی “۔ یہ مطلب نہیں کہ قیامت کے روز ہمیں وہ نزدیکی اور مرتبہ دلوائیں گے۔ اس لیے کہ قیامت کے تو وہ قائل ہی نہ تھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ انہیں اپنا سفارشی جانتے تھے۔

جاہلیت کے زمانہ میں حج کو جاتے تو وہاں لبیک پکارتے ہوئے کہتے «لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَك إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَك تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ» اللہ ہم تیرے پاس حاضر ہوئے۔ تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک جن کے اپنے آپ کا مالک بھی تو ہی ہے اور جو چیزیں ان کے ماتحت ہیں ان کا بھی حقیقی مالک تو ہی ہے۔

یہی شبہ اگلے پچھلے تمام مشرکوں کو رہا اور اسی کو تمام انبیاء علیہم السلام رد کرتے رہے اور صرف اللہ تعالیٰ واحد کی عبادت کی طرف انہیں بلاتے رہے۔ یہ عقیدہ مشرکوں نے بے دلیل گھڑ لیا تھا جس سے اللہ بیزار تھا۔ فرماتا ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا» [16-النحل:36] ‏‏‏‏، یعنی ” ہر امت میں ہم نے رسول بھیجے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو “

اور فرمایا «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ» [21-الأنبياء:25] ‏‏‏‏، یعنی ” تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ معبود برحق صرف میں ہی ہوں پس تم سب میری ہی عبادت کرنا “۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان فرمادیا کہ ” آسمان میں جس قدر فرشتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے مرتبے والے کیوں نہ ہوں سب کے سب اس کے سامنے لاچار عاجز اور غلاموں کی مانند ہیں اتنا بھی تو اختیار نہیں کہ کسی کی سفارش میں لب ہلا سکیں “۔
7779

یہ عقیدہ محض غلط ہے کہ وہ اللہ کے پاس ایسے ہیں جیسے بادشاہوں کے پاس امیر امراء ہوتے ہیں کہ جس کی وہ سفارش کر دیں اس کا کام بن جاتا ہے اس باطل اور غلط عقیدے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ «‏‏‏‏فَلَا تَضْرِ‌بُوا لِلَّـهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» ‏‏‏‏ [16-النحل:74] ‏‏‏‏ ” اللہ کے سامنے مثالیں نہ بیان کیا کرو۔ اللہ اسے بہت بلند و بالا ہے “۔

قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا سچا فیصلہ کر دے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا ان سب کو جمع کر کے فرشتوں سے سوال کرے گا کہ ” کیا یہ لوگ تمہیں پوجتے تھے؟ “ وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے، یہ نہیں بلکہ ہمارا ولی تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان میں سے اکثر کا عقیدہ و ایمان انہی پر تھا۔

اللہ تعالیٰ انہیں راہ راست نہیں دکھاتا جن کا مقصود اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنا ہو اور جن کے دل میں اللہ کی آیتوں، اس کی نشانیوں اور اس کی دلیلوں سے کفر بیٹھ گیا ہو۔
7780

پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے عقیدے کی نفی کی جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے مثلاً مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ یہود کہتے تھے عزیز علیہ السلام اللہ کے لڑکے ہیں۔ عیسائی گمان کرتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔

پس فرمایا کہ ” جیسا ان کا خیال ہے اگر یہی ہوتا تو اس امر کے خلاف ہوتا “، پس یہاں شرط نہ تو واقع ہونے کے لیے ہے نہ امکان کے لیے۔ بلکہ محال کے لیے ہے اور مقصد صرف ان لوگوں کی جہالت بیان کرنے کا ہے۔

جیسے فرمایا «لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ» [21-الأنبياء:17] ‏‏‏‏، ” اگر ہم ان بیہودہ باتوں کا ارادہ کرتے تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے“۔

اور آیت میں ہے «قُلْ اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ» [43-الزخرف:81] ‏‏‏‏ یعنی ” کہدے کہ اگر رحمان کی اولاد ہوتی تو میں تو سب سے پہلے اس کا قائل ہوتا “۔ پس یہ سب آیتیں شرط کو محال کے ساتھ متعلق کرنے والی ہیں۔ امکان یا وقوع کے لیے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہ یہ ہو سکتا ہے نہ وہ ہو سکتا ہے۔

اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے وہ فرد احد، صمد اور واحد ہے۔ ہرچیز اس کی ماتحت فرمانبردار عاجز محتاج فقیر بے کس اور بے بس ہے۔ وہ ہرچیز سے غنی ہے سب سے بےپرواہ ہے سب پر اس کی حکومت اور غلبہ ہے، ظالموں کے ان عقائد سے اور جاہلوں کی ان باتوں سے اس کی ذات مبرا و منزہ ہے۔
7781



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.