تفسير ابن كثير



سورۃ الزمر

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ[9]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] (کیا یہ بہترہے) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیا م کر تے ہوئے عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے؟ کہہ دے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔ [9]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو، (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے) [9]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (بھلا مشرک اچھا ہے) یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا اور آخرت سے ڈرتا اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔ کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں [9]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 9،

مشرک اور موحد برابر نہیں ٭٭

مطلب یہ ہے کہ جس کی حالت یہ ہو وہ مشرک کے برابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے «لَيْسُوْا سَوَاءً مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّـهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ» [3-آل عمران:113] ‏‏‏‏، یعنی ” سب کے سب برابر کے نہیں، اہل کتاب میں وہ جماعت بھی ہے جو راتوں کے وقت قیام کی حالت میں آیات الہیہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدوں میں پڑے رہتے ہیں “۔ قنوت سے مراد یہاں پر نماز کا خشوع خضوع ہے۔ صرف قیام مراد نہیں۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے «قَانِتٌ» کے معنی مطیع اور فرمانبردار کے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے کہ «آنَاءَ اللَّيْلِ» سے مراد آدھی رات سے ہے۔ منصور رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد مغرب عشاء کے درمیان کا وقت ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں۔ اول درمیانہ اور آخری شب مراد ہے۔ یہ عابد لوگ ایک طرف لرزاں و ترساں ہیں دوسری جانب امیدوار اور طمع کناں ہیں۔ نیک لوگوں پر زندگی میں تو خوف اللہ امید پر غالب رہتا ہے موت کے وقت خوف پرامید کا غلبہ ہو جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس اس کے انتقال کے وقت جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تو اپنے آپ کو کس حالت میں پاتا ہے؟ اس نے کہا خوف و امید کی حالت میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دل میں ایسے وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں اس کی امید اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے اور اس کے خوف سے اسے نجات عطا فرماتا ہے ۔ [سنن ترمذي:983،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏
7791

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ وصف صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ میں تھا۔‏‏‏‏ [الدر المنشور للسیوطی:355/5:ضعیف] ‏‏‏‏ فی الواقع آپ رضی اللہ عنہ رات کے وقت بکثرت تہجد پڑھتے رہتے تھے اور اس میں قرآن کریم کی لمبی قرأت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ کبھی کبھی ایک ہی رکعت میں قرآن ختم کر دیتے تھے۔ جیسا کہ ابوعبید رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ شاعر کہتا ہے۔ صبح کے وقت ان کے منہ نورانی چمک لیے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے تسبیح و تلاوت قرآن میں رات گذاری ہے۔

نسائی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جس نے ایک رات سو آیتیں پڑھ لیں اس کے نامہ اعمال میں ساری رات کی قنوت لکھی جاتی ہے ۔ [مسند احمد:103/4:حسن بالشواهد] ‏‏‏‏

پس ایسے لوگ اور مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں کسی طرح ایک مرتبے کے نہیں ہو سکتے، عالم اور بےعلم کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا۔ ہر عقلمند پر ان کا فرق ظاہر ہے۔
7792



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.