تفسير ابن كثير



سورۃ الزمر

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ[49] قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ[50] فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ[51] أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ[52]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو کہتا ہے یہ مجھے ایک علم کی بنیاد ہی پر دی گئی ہے۔ بلکہ وہ ایک آزمائش ہے اور لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ [49] بلا شبہ یہی بات ان لوگوں نے کہی جو ان سے پہلے تھے تو ان کے کام نہ آیا جو وہ کمایا کرتے تھے۔ [50] تو ان پر ان (اعمال) کے وبال آپڑے جو انھوں نے کمائے اور وہ لوگ جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا ان پر بھی جلد ہی ان (اعمال) کے وبال آ پڑیں گے جو انھوں نے کمائے اور وہ ہرگز عاجز کرنے والے نہیں ہیں۔ [51] اور کیا انھوں نے نہیں جانا کہ اللہ رزق فراخ کر دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوںکے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔ [52]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرمادیں تو کہنے لگتا ہے کہ اسے تو میں محض اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہوں، بلکہ یہ آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں [49] ان سے اگلے بھی یہی بات کہہ چکے ہیں پس ان کی کارروائی ان کے کچھ کام نہ آئی [50] پھر ان کی تمام برائیاں ان پر آ پڑیں، اوران میں سے بھی جو گناه گار ہیں ان کی کی ہوئی برائیاں بھی اب ان پر آ پڑیں گی، یہ (ہمیں) ہرا دینے والے نہیں [51] کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے روزی کشاده کر دیتا ہے اور تنگ (بھی)، ایمان ﻻنے والوں کے لیے اس میں (بڑی بڑی) نشانیاں ہیں [52]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے۔ پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے نعمت بخشتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے (میرے) علم (ودانش) کے سبب ملی ہے۔ (نہیں) بلکہ وہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں جانتے [49] جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے تو جو کچھ وہ کیا کرتے تھے ان کے کچھ بھی کام نہ آیا [50] ان پر ان کے اعمال کے وبال پڑ گئے۔ اور جو لوگ ان میں سے ظلم کرتے رہے ہیں ان پر ان کے عملوں کے وبال عنقریب پڑیں گے۔ اور وہ (خدا کو) عاجز نہیں کرسکتے [51] کیا ان کو معلوم نہیں کہ خدا ہی جس کے لئے چاہتا ہے رزق کو فراخ کردیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کے لئے اس میں (بہت سی) نشانیاں ہیں [52]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 49، 50، 51، 52،

انسان کا ناشکرا پن ٭٭

اللہ تعالیٰ انسان کی حالت کو بیان فرماتا ہے کہ ” مشکل کے وقت تو وہ آہ و زاری شروع کر دیتا ہے، اللہ کی طرف پوری طرح راجع اور راغب ہو جاتا ہے، لیکن جہاں مشکل ہو گئی جہاں راحت و نعمت حاصل ہوئی یہ سرکش و متکبر بنا “۔ اور اکڑتا ہوا کہنے لگا کہ یہ تو اللہ کے ذمے میرا حق تھا۔ میں اللہ کے نزدیک اس کا مستحق تھا ہی۔ میری اپنی عقلمندی اور خوش تدبیری کی وجہ سے اس نعمت کو میں نے حاصل کیا ہے۔
7844

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” بات یوں نہیں بلکہ دراصل یہ ہماری طرف کی آزمائش ہے گو ہمیں ازل سے علم حاصل ہے لیکن تاہم ہم اسے ظہور میں لانا چاہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس نعمت کا یہ شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری؟ لیکن یہ لوگ بےعلم ہیں۔ دعوے کرتے ہیں منہ سے بات نکال دیتے ہیں لیکن اصلیت سے بے خبر ہیں، یہی دعویٰ اور یہی قول ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی کیا اور کہا، لیکن ان کا قول صحیح ثابت نہ ہوا اور ان نعمتوں نے، کسی اور چیز نے اور ان کے اعمال نے انہیں کوئی نفع نہ دیا، جس طرح ان پر وبال ٹوٹ پڑا اسی طرح ان پر بھی ایک دن ان کی بداعمالیوں کا وبال آ پڑے گا اور یہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔ نہ تھکا اور ہرا سکتے ہیں “۔

جیسے کہ قارون سے اس کی قوم نے کہا تھا «إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ» [28-القص:76-78] ‏‏‏‏ ” کہ اس قدر اکڑ نہیں اللہ تعالیٰ خود پسندوں کو محبوب نہیں رکھتا۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ کر کے آخرت کی تیاری کر اور وہاں کا سامان مہیا کر۔ اس دنیا میں بھی فائدہ اٹھاتا رہ اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا ہے، تو بھی لوگوں کے ساتھ احسان کرتا رہ۔ زمین میں فساد کرنے والا مت بن اللہ تعالیٰ مفسدوں سے محبت نہیں کرتا “۔

اس پر قارون نے جواب دیا کہ ان تمام نعمتوں اور جاہ و دولت کو میں نے اپنی دانائی اور علم و ہنر سے حاصل کیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” کیا اسے یہ معلوم نہیں کہ اس سے پہلے اس سے زیادہ قوت اور اس سے زیادہ جمع جتھا والوں کو میں نے ہلاک و برباد کر دیا ہے، مجرم اپنے گناہوں کے بارے میں پوچھے نہ جائیں گے “۔
7845

الغرض مال و اولاد پر پھول کر اللہ کو بھول جانا یہ شیوہ کفر ہے۔ کفار کا قول تھا کہ ہم مال و اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہو گا، ” کیا انہیں اب تک یہ معلوم نہیں کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کیلئے چاہے کشادگی کرے اور جس پر چاہے تنگی کرے۔ اس میں ایمان والوں کیلئے طرح طرح کی عبرتیں اور دلیلیں ہیں “۔
7846



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.