تفسير ابن كثير



سورۃ غافر/مومن

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّى يُصْرَفُونَ[69] الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ[70] إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ[71] فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ[72] ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُونَ[73] مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَلْ لَمْ نَكُنْ نَدْعُو مِنْ قَبْلُ شَيْئًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ[74] ذَلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُونَ[75] ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ[76]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں، کہاں پھیرے جا رہے ہیں۔ [69] وہ لوگ جنھوںنے کتاب کو اور جو کچھ ہم نے اپنے رسولوں کو دے کر بھیجا اسے جھٹلادیا، سو عنقریب جان لیں گے ۔ [70] جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور زنجیریں، گھسیٹے جا رہے ہوں گے۔ [71] کھولتے پانی میں، پھر آگ میں جھونکے جائیں گے۔ [72] پھر ان سے کہا جائے گا کہاں ہیں وہ جو تم شریک ٹھہراتے تھے؟ [73] اللہ کے سوا۔ کہیں گے وہ ہم سے گم ہوگئے، بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔ اسی طرح اللہ کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔ [74] یہ اس لیے ہے کہ تم زمین میں حق کے بغیر خوش ہوتے تھے اور اس لیے کہ تم اکڑتے تھے۔ [75] جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ، اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو، پس وہ تکبر کرنے والوں کی بری جگہ ہے۔ [76]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا تو نے انہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں، وه کہاں پھیر دیے جاتے ہیں [69] جن لوگوں نے کتاب کو جھٹلایا اور اسے بھی جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجا انہیں ابھی ابھی حقیقت حال معلوم ہو جائے گی [70] جب کہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور زنجیریں ہوں گی گھسیٹے جائیں گے [71] کھولتے ہوئے پانی میں اور پھر جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے [72] پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ جنہیں تم شریک کرتے تھے وه کہاں ہیں۔ [73] جو اللہ کے سوا تھے وه کہیں گے کہ وه تو ہم سے بہک گئے بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی کو بھی پکارتے ہی نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو اسی طرح گمراه کرتا ہے [74] یہ بدلہ ہے اس چیز کا جو تم زمین میں ناحق پھولے نہ سماتے تھے۔ اور (بےجا) اتراتے پھرتے تھے [75] (اب آؤ) جہنم میں ہمیشہ رہنے کے لیے (اس کے) دروازوں میں داخل ہو جاؤ، کیا ہی بری جگہ ہے تکبر کرنے والے کی [76]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔ یہ کہاں بھٹک رہے ہیں؟ [69] جن لوگوں نے کتاب (خدا) کو اور جو کچھ ہم نے پیغمبروں کو دے کر بھیجا اس کو جھٹلایا۔ وہ عنقریب معلوم کرلیں گے [70] جب کہ ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی (اور) گھسیٹے جائیں گے [71] (یعنی) کھولتے ہوئے پانی میں۔ پھر آگ میں جھونک دیئے جائیں گے [72] پھر ان سے کہا جائے گا کہ وہ کہاں ہیں جن کو تم (خدا کے) شریک بناتے تھے [73] (یعنی غیر خدا) کہیں گے وہ تو ہم سے جاتے رہے بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو پکارتے ہی نہیں تھے۔ اسی طرح خدا کافروں کو گمراہ کرتا ہے [74] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم زمین میں حق کے بغیر (یعنی اس کے خلاف) خوش ہوا کرتے تھے اور اس کی (سزا ہے) کہ اترایا کرتے تھے [75] (اب) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے۔ متکبروں کا کیا برا ٹھکانا ہے [76]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 69، 70، 71، 72، 73، 74، 75، 76،

کفار کو عذاب جہنم اور طوق و سلاسل کی وعید ٭٭

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا تمہیں ان لوگوں پر تعجب نہیں ہوتا جو اللہ کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں اور اپنے باطل کے سہارے حق سے اَڑتے ہیں؟ تم نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح ان کی عقلیں ماری گئی ہیں؟ اور بھلائی کو چھوڑ برائی کو کیسے بری طرح چمٹ گئے ہیں؟ پھر ان بدکردار کفار کو ڈرا رہا ہے کہ ہدایت و بھلائی کو جھوٹ جاننے والے کلام اللہ اور کلام رسول کے منکر اپنا انجام ابھی دیکھ لیں گے۔ جیسے فرمایا «وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ» [ 77-المرسلات: 15 ] ‏‏‏‏ جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت ہے، جبکہ گردنوں میں طوق اور زنجیریں پڑی ہوئی ہوں گی اور داروغہ جہنم گھسیٹے گھسیٹے پھر رہے ہوں گے۔ کبھی حمیم میں اور کبھی حجیم میں۔ گرم کھولتے ہوئے پانی میں سے گھسیٹے جائیں گے۔ اور آگِ جہنم میں جھلسائے جائیں گے۔ جیسے اور جگہ ہے «هَـٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ» ‏‏‏‏ [ 55-الرحمن: 43، 44 ] ‏‏‏‏۔ یہ ہے وہ جہنم جسے گنہگار لوگ جھوٹا جانا کرتے تھے۔ اب یہ اس کے اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان مارے مارے پریشان پھرا کریں۔ اور آیتوں میں ان کا زقوم کھانا اور گرم پانی پینا بیان فرما کر فرمایا «ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ» [ 37- الصافات: 68 ] ‏‏‏‏ کہ پھر ان کی بازگشت تو جہنم ہی کیطرف ہے۔

8011

سورۃ الواقعہ میں اصحاب شمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا «وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ وَظِلٍّ مِّن يَحْمُومٍ لَّا بَارِدٍ وَلَا كَرِيمٍ» [ 56-سورة الواقعة: 41-44 ] ‏‏‏‏ بائیں ہاتھ والے کس قدر برے ہیں؟ وہ آگ میں ہیں اور گرم پانی میں اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا ہے نہ سود مند،

آگے چل کر فرمایا، «ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ لَآكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ هَـٰذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ» [ 56-سورة الواقعة: 51-56 ] ‏‏‏‏ اے بہکے ہوئے جھٹلانے والو البتہ سینڈ کا درخت کھاؤ گے اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے۔ پھر اس پر جلتا پانی پیو گے اور اس طرح جس طرح تونس والا اونٹ پیتا ہے۔ آج انصاف کے دن ان کی مہمانی یہی ہو گی۔

اور جگہ فرمایا ہے «إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ طَعَامُ الْأَثِيمِ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ كَغَلْيِ الْحَمِيمِ خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلَىٰ سَوَاءِ الْجَحِيمِ ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِ ذُقْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ إِنَّ هَـٰذَا مَا كُنتُم بِهِ تَمْتَرُونَ» [ 44- الدخان: 43-50 ] ‏‏‏‏، یعنی یقیناً گنہگاروں کا کھانا زقوم کا درخت ہے جو مثل پگھلے ہوئے تابنے کے ہے جو پیٹوں میں کھولتا رہتا ہے۔ جیسے تیز گرم پانی۔ اسے پکڑو اور دھکیلتے ہوئے بیچوں بیچ جہنم میں پہنچاؤ پھر اس کے سر پر تیز گرم جلتے جلتے پانی کا عذاب بہاؤ، لے چکھ تو بڑا ہی ذی عزت اور بڑی ہی تعظیم تکریم والا شخص تھا۔ جس سے تم شک شبہ میں تھے۔ مقصد یہ ہے کہ ایک طرف سے تو وہ یہ دکھ سہہ رہے ہوں گے جن کا بیان ہوا اور دوسری جانب سے انہیں ذلیل و خوار و رو سیاہ ناہنجار کرنے کیلئے بطور استہزاء اور تمسخر کے بطور ڈانٹ اور ڈپٹ کے بطور حقارت اور ذلت کے ان سے یہ کہا جائے گا جس کا ذکر ہوا۔

8012

ابن ابی حاتم کی ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ ایک جانب سے سیاہ ابر اٹھے گا جسے جہنمی دیکھیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ ابر کو دیکھتے ہوئے دنیا کے انداز پر کہیں گے کہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ برسے وہیں اس میں سے طوق اور زنجیریں اور آگ کے انگارے برسنے لگیں گے جس کے شعلے انہیں جلائیں جھلسائیں گے اور وہ طوق و سلاسل ان کے طوق و سلاسل کے ساتھ اضافہ کر دیئے جائیں گے۔ (‏‏‏‏مجمع الزوائد: [18598] ‏‏‏‏ضعیف)‏‏‏‏‏‏‏‏

پھر ان سے کہا جائے گا کہ کیوں جی دنیا میں اللہ عزوجل کے سوا جن جن کو پوجتے رہے وہ سب آج کہاں ہیں؟ کیوں وہ تمہاری مدد کو نہیں آئے؟ کیوں تمہیں یوں کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہاں وہ تو سب آج ناپید ہو گئے وہ تھے ہی بےسود۔

پھر انہیں کچھ خیال آئے گا اور کہیں گے نہیں نہیں ہم نے تو ان کی عبادت کبھی نہیں کی۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جب ان کے بنائے کچھ نہ بنے گی تو صاف انکار کر دیں گے اور جھوٹ بول دیں گے کہ «وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ» [ 6- الانعام: 23 ] ‏‏‏‏ اللہ ہمیں تیری قسم ہم مشرک نہ تھے۔

یہ کفار اسی طرح بیکاری میں کھوئے رہتے ہیں، ان سے فرشتے کہیں گے یہ بدلہ ہے اس کا جو دنیا میں بے وجہ گردن اکڑائے اکڑتے پھرتے تھے۔ تکبر و جبر پر چست کمر رہتے تھے لو اب آ جاؤ جہنم کے ان دروازوں میں داخل ہو جاؤ اب ہمیشہ یہیں پہ رہنا تم جیسے اترانے والوں کی ہی یہ بدمنزل اور بری جائے قرار ہے۔ جس قدر تکبر کئے تھے اتنے ہی ذلیل و خوار آج بنو گے۔ جتنے ہی بلند گئے تھے اتنے ہی ِگرو گے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
8013



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.