تفسير ابن كثير



سورۃ الشوريٰ

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ[23]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یہ ہے وہ چیز جس کی خوش خبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اورانھوں نے نیک اعمال کیے۔ کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیںمانگتا مگر رشتہ داری کی وجہ سے دوستی۔ اور جو کوئی نیکی کمائے گا ہم اس کے لیے اس میں خوبی کا اضافہ کریں گے۔ یقینا اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت قدردان ہے۔ [23]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یہی وه ہے جس کی بشارت اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو دے رہا ہے جو ایمان ﻻئے اور (سنت کے مطابق) نیک عمل کیے تو کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی، جو شخص کوئی نیکی کرے ہم اس کے لیے اس کی نیکی میں اور نیکی بڑھا دیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ (اور) بہت قدر دان ہے [23]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] یہی وہ (انعام ہے) جس کی خدا اپنے ان بندوں کو جو ایمان لاتے اور عمل نیک کرتے ہیں بشارت دیتا ہے۔ کہہ دو کہ میں اس کا تم سے صلہ نہیں مانگتا مگر (تم کو) قرابت کی محبت (تو چاہیئے) اور جو کوئی نیکی کرے گا ہم اس کے لئے اس میں ثواب بڑھائیں گے۔ بےشک خدا بخشنے والا قدردان ہے [23]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 23،

رسول اللہ سے قرابت داری کی فضیلت ٭٭

اوپر کی آیتوں میں جنت کی نعمتوں کا ذکر کر کے بیان فرما رہا ہے کہ ایماندار , نیک کار بندوں کو اس کی بشارت ہو پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ قریش کے مشرکین سے کہہ دو کہ اس تبلیغ پر اور اس تمہاری خیر خواہی پر میں تم سے کچھ طلب تو نہیں کر رہا۔ تمہاری بھلائی تو ایک طرف رہی تم اگر اپنی برائی سے ہی ٹل جاؤ اور مجھے رب کی رسالت پہنچانے دو اور قرابت داری کے رشتے کو سامنے رکھ کر میری ایذاء رسانی سے ہی رک جاؤ تو یہی بہت ہے صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ نے کہا اس سے مراد قرابت آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے عجلت سے کام لیا سنو قریش کے جس قدر قبیلے تھے سب کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری تھی تو مطلب یہی کہ تم اس رشتے داری کا لحاظ رکھو جو مجھ میں اور تم میں ہے۔ [صحیح بخاری:4818] ‏‏‏‏

8142

حضرت مجاہدرحمہ اللہ، عکرمہ رحمہ اللہ، قتادہ رحمہ اللہ، سدی رحمہ اللہ، ابو مالک رحمہ اللہ، عبد الرحمن رحمہ اللہ وغیرہ بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں۔طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار قریش سے کہا میں تم سے اس کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتا مگر یہ کہ تم اس قرابت داری کا خیال رکھو جو مجھ اور تم میں ہے۔ اس میری قرابت کا حق جو تم پر ہے وہ ادا کرو۔ [طبرانی اوسط:3347:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جو دلیلیں دی ہیں جس ہدایت کا راستہ بتایا ہے اس پر کوئی اجر تم سے نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم اللہ کو چاہنے لگو اور اس کی اطاعت کی وجہ سے اس سے قرب اور نزدیکی حاصل کر لو۔ [مسند احمد:268/1:ضعیف] ‏‏‏‏

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے تو یہ دوسرا قول ہوا پہلا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رشتے داری کو یاد دلانا۔
8143

دوسرا قول آپ کی یہ طلب کہ لوگ اللہ کی نزدیکی حاصل کر لیں۔

تیسرا قول جو حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کی روایت سے گزرا کہ تم میری قرابت کے ساتھ احسان اور نیکی کرو۔ ابو الدیلم کا بیان ہے کہ جب حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ کو قید کر کے لایا گیا اور دمشق کے بالاخانے میں رکھا گیا تو ایک شامی نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں قتل کرایا اور تمہارا ناس کرا دیا اور فتنہ کی ترقی کو روک دیا یہ سن کر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا کیا تو نے قرآن بھی پڑھا ہے اس نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا اس میں «حٰم» والی سورتیں بھی پڑھی ہیں؟ اس نے کہا واہ سارا قرآن پڑھ لیا اور «حٰم» والی سورتیں نہیں پڑھیں؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا پھر کیا ان میں اس آیت کی تلاوت تو نے نہیں کی؟ آیت «قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ۭ وَمَنْ يَّــقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ» [ 42- الشورى: 23 ] ‏‏‏‏ یعنی میں تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا مگر محبت قرابت کی۔ اس نے کہا پھر کیا تم وہ ہو؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ہاں! حضرت عمرو بن شعیب رحمہ اللہ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا مراد قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

8144

ابن جریر میں ہے کہ انصار رضی اللہ عنہم نے اپنی خدمات اسلام گنوائیں گویا فخر کے طور پر۔ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہم تم سے افضل ہیں جب یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مجلس میں آئے اور فرمایا انصاریو کیا تم ذلت کی حالت میں نہ تھے؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے عزت بخشی! انہوں نے کہا بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں۔ فرمایا: کیا تم گمراہ نہ تھے؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے ہدایت کی؟ انہوں نے کہا ہاں بیشک آپ نے سچ فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تم مجھے کیوں نہیں کہتے؟ انہوں نے کہا کیا کہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں کہتے؟ کہ کیا تیری قوم نے تجھے نکال نہیں دیا تھا؟ اس وقت ہم نے تجھے پناہ دی کیا انہوں نے تجھے جھٹلایا نہ تھا؟ اس وقت ہم نے تیری تصدیق کی؟ کیا انہوں نے تجھے پست کرنا نہیں چاہا تھا اس وقت ہم نے تیری مدد کی؟ اس طرح کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی بہت سی باتیں کیں یہاں تک کہ انصار اپنے گھٹنوں پر جھک پڑے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہماری اولاد اور جو کچھ ہمارے پاس ہے سب اللہ کا اور سب اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:30678:ضعیف] ‏‏‏‏
8145

پھر یہ آیت «قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ۭ وَمَنْ يَّــقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ» [ 42- الشورى: 23 ] ‏‏‏‏ نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم میں بھی اسی کے قریب ضعیف سند سے مروی ہے بخاری و مسلم میں یہ حدیث ہے . [صحیح بخاری:4330] ‏‏‏‏

اس میں ہے کہ یہ واقعہ حنین کی غنیمت کی تقسیم کے وقت پیش آیا تھا اور اس میں آیت کے اترنے کا ذکر بھی نہیں اور اس آیت کو مدینے میں نازل شدہ ماننے میں بھی قدرے تامل ہے اس لیے کہ یہ سورت مکی ہے پھر جو واقعہ حدیث میں مذکور ہے اس واقعہ میں اور اس آیت میں کچھ ایسی زیادہ ظاہر مناسبت بھی نہیں ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا اس آیت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت رکھنے کا ہمیں حکم باری ہوا ہے آپ نے فرمایا فاطمہ اور ان کی اولاد رضی اللہ عنہم۔ [طبرانی کبیر:12384:ضعیف] ‏‏‏‏

لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور اس کا راوی مبہم ہے جو معروف نہیں پھر اس کا استاد ایک شیعہ ہے جو بالکل ثقاہت سے گرا ہوا ہے اس کا نام حسین اشغر ہے اس جیسی حدیث بھلا اس کی روایت سے کیسے مان لی جائے گی؟ پھر مدینے میں آیت نازل ہونا ہی مستعد ہے حق یہ ہے کہ آیت مکی ہے اور مکہ شریف میں فاطمہ کا عقد ہی نہ ہوا تھا اولاد کیسی؟ آپ رضی اللہ عنہا کا عقد تو صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ بدر کے بعد سنہ 2 ھ میں ہوا۔
8146

پس صحیح تفسیر اس کی وہی ہے جو حبرالامة ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کی ہے جو بحوالہ بخاری پہلے گذر چکی ہم اہل بیت کے ساتھ خیر خواہی کرنے کے منکر نہیں ہے ہم مانتے ہیں کہ ان کے ساتھ احسان و سلوک اور ان کا اکرام و احترام ضروری چیز ہے روئے زمین پر ان سے زیادہ پاک اور صاف ستھرا گھرانا اور نہیں حسب و نسب میں اور فخر و مباہات میں بلا شک یہ سب سے اعلیٰ ہیں۔ بالخصوص ان میں سے وہ جو متبع سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں جیسے کہ اسلاف کی روش تھی یعنی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور آل عباس رضی اللہ عنہ کی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور آل علی رضی اللہ عنہ کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا ہے میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گے جب تک کہ حوض پر میرے پاس نہ آئیں۔ [صحیح مسلم:2408] ‏‏‏‏
8147

مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ قریشی جب آپس میں ملتے ہیں تو بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ لیکن ہم سے اس ہنسی خوشی کے ساتھ نہیں ملتے۔ یہ سن کر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمانے لگے اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کسی کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اللہ کے لیے اور اس کے رسول کی وجہ سے تم سے محبت نہ رکھے۔ [سنن ترمذي:3758،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا قریشی باتیں کرتے ہوتے ہیں ہمیں دیکھ کر چپ ہو جاتے ہیں اسے سن کر مارے غصے کے آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور فرمایا واللہ! کسی مسلمان کے دل میں ایمان جاگزیں نہیں ہو گا جب تک کہ وہ تم سے اللہ کے لیے اور میری قرابت داری کی وجہ سے محبت نہ رکھے۔ [مسند احمد:207/1:ضعیف] ‏‏‏‏

صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں رکھو۔ [صحیح بخاری:3713] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں سے سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے سلوک سے بھی پیارا ہے۔ [صحیح بخاری:3712] ‏‏‏‏

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا واللہ تمہارا اسلام لانا مجھے اپنے والد خطاب کے اسلام لانے سے بھی زیادہ اچھا لگا اس لیے کہ تمہارا اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے اسلام سے زیادہ محبوب تھا۔ پس اسلام کے ان دو چمکتے ستاروں کا مسلمانوں کے ان دونوں سیدوں کا جو معاملہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقربا پیغمبر کے ساتھ تھا وہی عزت و محبت کا معاملہ مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور قرابت داروں سے رکھنا چاہیئے۔ کیونکہ نبیوں اور رسولوں کے بعد تمام دنیا سے افضل یہی دونوں بزرگ خلیفہ رسول تھے رضی اللہ عنہما۔ پس مسلمانوں کو ان کی پیروی کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور کنبے قبیلے کے ساتھ جس عقیدت سے پیش آنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں خلیفہ سے اہل بیت سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کل صحابہ رضی اللہ عنہم سے خوش ہو جائے اور سب کو اپنی رضا مندی میں لے لے۔ آمین۔
8148

صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ یزید بن حیان اور حصین بن میسرہ اور عمر بن مسلم رحمہ اللہ علیہم سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے حصین نے کہا: اے حضرت! آپ کو تو بڑی بڑی خیر و برکت مل گئی، آپ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا آپ نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں، حق تو یہ ہے کہ بڑی بڑی فضیلتیں آپ نے سمیٹ لیں، اچھا اب کوئی حدیث ہمیں بھی بتائیے۔ اس پر سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے بھتیجے سنو، میری عمر اب بڑی ہو گئی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کو عرصہ گزر چکا بعض چیزیں ذہن میں محفوظ نہیں رہیں اب تو یہی رکھو کہ جو از خود سنا دوں اسے مان لیا کرو ورنہ مجھے تکلیف نہ دو کہ تکلف سے بیان کرنا پڑے، پھر آپ نے فرمایا کہ مکے اور مدینے کے درمیان پانی کی جگہ کے پاس جسے خم کہا جاتا تھا کھڑے ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا اللہ کی حمد و ثنا کی وعظ و پند کیا پھر فرمایا: لوگو! میں ایک انسان ہوں کیا عجب کہ ابھی ابھی میرے پاس اللہ کا قاصد پہنچ جائے اور میں اس کی مان لوں سنو میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک تو کتاب اللہ جس میں نور و ہدایت ہے تم اللہ کی کتاب کو مضبوط تھام لو اور اس کو مضبوطی سے تھامے رہو پس اس کی بڑی رغبت دلائی اور بہت کچھ تاکید کی پھر فرمایا اے میرے اہل بیت میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں یہ سن کر حصین رحمہ اللہ نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے زید! آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی بیویاں اہل بیت میں داخل نہیں؟ فرمایا بیشک آپ کی بیویاں وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے پوچھا وہ کون ہیں؟ فرمایا آل علی، آل عقیل، آل جعفر، آل عباس رضی اللہ عنہم پوچھا کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ فرمایا ہاں! [صحیح مسلم:4208] ‏‏‏‏
8149

ترمذی شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط تھامے رہے تو بہکو گے نہیں ایک دوسرے سے زیادہ عظمت والی ہے کتاب اللہ جو اللہ کی طرف سے ایک لٹکائی ہوئی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آئی ہے اور دوسری چیز میری عترت میرے اہل بیت ہے اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں۔ پس دیکھ لو کہ میرے بعد کس طرح ان میں میری جانشینی کرتے ہو؟ [سنن ترمذي:3788، قال الشيخ الألباني:صحیح ] ‏‏‏‏ امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اور صرف ترمذی میں ہے

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ترمذی میں ہے کہ عرفے والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر جسے قصواء کہا جاتا تھا خطبہ دیا جس میں فرمایا لوگو میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے تھامے رہے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت۔ [سنن ترمذي:3786، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ترمذی کی اور روایت میں ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو مدنظر رکھ کر تم لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میری اہل بیت سے محبت رکھو۔ [سنن ترمذي:3789، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

یہ حدیث اور اوپر کی حدیث حسن غریب ہے اس مضمون کی اور احادیث ہم نے آیت: «اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا» [ 33- الأحزاب: 33 ] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں وارد کر دی ہیں یہاں ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
8150

ایک ضعیف حدیث مسند ابو یعلیٰ میں ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا تھامے ہوئے فرمایا لوگو جو مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں جو نہیں پہچانتے وہ اب پہچان کر لیں کہ میرا نام ابوذر ہے سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم میں میرے اہل بیت کی مثال مثل نوح علیہ السلام کی کشتی کے ہے اس میں جو چلا گیا اس نے نجات پالی اور جو اس میں داخل نہ ہوا ہلاک ہوا۔ [مسند ابویعلیٰ:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے جو نیک عمل کرے ہم اس کا ثواب اور بڑھا دیتے ہیں جیسے ایک اور آیت میں فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر ظلم نہیں کرتا اگر نیکی ہو تو اور بڑھا دیتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے بعض سلف کا قول ہے کہ نیکی کا ثواب اس کے بعد نیکی ہے اور برائی کا بدلہ اس کے بعد برائی ہے پھر فرمان ہوا کہ اللہ گناہوں کو بخشنے والا ہے اور نیکیوں کی قدر دانی کرنے والا ہے انہیں بڑھا چڑھا کر دیتا ہے۔
8151



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.