تفسير ابن كثير



سورۃ الزخرف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ[21] بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ[22] وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ[23] قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ[24] فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ[25]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یا کیاہم نے انھیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے؟ پس وہ اسے مضبوطی سے تھامنے والے ہیں۔ [21] بلکہ انھوں نے کہا کہ بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے اور بے شک ہم انھی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں۔ [22] اور اسی طرح ہم نے تجھ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر اس کے خوش حال لوگوں نے کہا کہ بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا اور بے شک ہم انھی کے قدموں کے نشانوں کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ [23] اس نے کہا اور کیا اگر میں تمھارے پاس اس سے زیادہ سیدھا راستہ لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا؟انھوں نے کہا بے شک ہم اس سے جو دے کر تم بھیجے گئے ہو، منکر ہیں۔ [24] تو ہم نے ان سے بدلہ لیا، سو دیکھ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ [25]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی (اور) کتاب دی ہے جسے یہ مضبوط تھامے ہوئے ہیں [21] (نہیں نہیں) بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک مذہب پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل کر راه یافتہ ہیں [22] اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے واﻻ بھیجا وہاں کے آسوده حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو (ایک راه پر اور) ایک دین پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش پا کی پیروی کرنے والے ہیں [23] (نبی نے) کہا بھی کہ اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہت بہتر (مقصود تک پہنچانے واﻻ) طریقہ لے آیا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کے منکر ہیں جسے دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے [24] پس ہم نے ان سے انتقام لیا اور دیکھ لے جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ [25]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے سند پکڑتے ہیں [21] بلکہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رستے پر پایا ہے اور ہم انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں [22] اور اسی طرح ہم نے تم سے پہلے کسی بستی میں کوئی ہدایت کرنے والا نہیں بھیجا مگر وہاں کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راہ پر پایا اور ہم قدم بقدم ان ہی کے پیچھے چلتے ہیں [23] پیغمبر نے کہا اگرچہ میں تمہارے پاس ایسا (دین) لاؤں کہ جس رستے پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا وہ اس سے کہیں سیدھا رستہ دکھاتا ہے کہنے لگے کہ جو (دین) تم دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے [24] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا [25]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23، 24، 25،

باب

جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں ان کا بے دلیل ہونا بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ” کیا ہم نے ان کے اس شرک سے پہلے انہیں کوئی کتاب دے رکھی ہے؟ جس سے وہ سند لاتے ہوں۔ “ یعنی حقیقت میں ایسا نہیں جیسے فرمایا «‏‏‏‏اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ» [30-الروم:35] ‏‏‏‏، یعنی ” کیا ہم نے ان پر ایسی دلیل اتاری ہے جو ان سے شرک کو کہے؟ “ یعنی ایسا نہیں ہے۔

پھر فرماتا ہے ” یہ تو نہیں، بلکہ شرک کی سند ان کے پاس ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اپنے باپ دادوں کی تقلید کہ وہ جس دین پر تھے ہم اسی پر ہیں اور رہیں گے۔ “

امت سے مراد یہاں دین ہے اور آیت «‏‏‏‏إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُونِ» [21-الأنبياء:92] ‏‏‏‏، میں بھی امت سے مراد دین ہی ہے ساتھ ہی کہا کہ ہم انہی کی راہوں پر چل رہے ہیں پس ان کے بے دلیل دعوے کو سنا کر اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” یہی روش ان سے اگلوں کی بھی رہی۔ ان کا جواب بھی نبیوں کی تعلیم کے مقابلہ میں یہی تقلید کو پیش کرنا تھا۔“

اور جگہ ہے آیت «كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» [51-الذاريات:52] ‏‏‏‏ یعنی ” ان سے اگلوں کے پاس بھی جو رسول آئے ان کی امتوں نے انہیں بھی جادوگر اور دیوانہ بتایا۔“

پس گویا کہ اگلے پچھلوں کے منہ میں یہ الفاظ بھر گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکشی میں یہ سب یکساں ہیں پھر ارشاد ہے کہ ” گو یہ معلوم کر لیں اور جان لیں کہ نبیوں کی تعلیم باپ دادوں کی تقلید سے بدرجہا بہتر ہے تاہم ان کا برا قصد اور ضد اور ہٹ دھرمی انہیں حق کی قبولیت کی طرف نہیں آنے دیتی۔ “

پس ایسے اڑیل لوگوں سے ہم بھی ان کی باطل پرستی کا انتقام نہیں چھوڑتے مختلف صورتوں سے انہیں تہ و بالا کر دیا کرتے ہیں ان کا قصہ مذکور و مشہور ہے غور و تامل کے ساتھ دیکھ پڑھ لو اور سوچ سمجھ لو کہ کس طرح کفار برباد کئے جاتے ہیں اور کس طرح مومن نجات پاتے ہیں۔
8223



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.