تفسير ابن كثير



سورۃ الزخرف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ[66] الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ[67] يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ[68] الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ[69] ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ[70]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہ قیامت کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آجائے اور وہ سوچتے بھی نہ ہوں۔ [66] سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔ [67] اے میرے بندو ! آج نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے۔ [68] وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور وہ فرماں بردار تھے۔ [69] جنت میں داخل ہو جاؤ تم اور تمھاری بیویاں، تم خوش کیے جاؤ گے۔ [70]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یہ لوگ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ وه اچانک ان پر آپڑے اور انہیں خبر بھی نہ ہو [66] اس دن (گہرے) دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے [67] میرے بندو! آج تو تم پر کوئی خوف (و ہراس) ہے اور نہ تم (بد دل اور) غمزده ہوگے [68] جو ہماری آیتوں پر ایمان ﻻئے اور تھے بھی وه (فرماں بردار) مسلمان [69] تم اور تمہاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ [70]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت ان پر ناگہاں آموجود ہو اور ان کو خبر تک نہ ہو [66] (جو آپس میں) دوست (ہیں) اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ مگر پرہیزگار (کہ باہم دوست ہی رہیں گے) [67] میرے بندو آج تمہیں نہ کچھ خوف ہے اور نہ تم غمناک ہوگے [68] جو لوگ ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور فرمانبردار ہوگئے [69] (ان سے کہا جائے گا) کہ تم اور تمہاری بیویاں عزت (واحترام) کے ساتھ بہشت میں داخل ہوجاؤ [70]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 66، 67، 68، 69، 70،

جنت میں جنت کے حقدار ٭٭

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” دیکھو تو یہ مشرک قیامت کا انتظار کر رہے ہیں جو محض بےسود ہے اس لیے کہ اس کے آنے کا کسی کو صحیح وقت تو معلوم نہیں وہ اچانک یونہی بے خبری کی حالت میں آ جائے گی اس وقت گو نادم ہوں لیکن اس سے کیا فائدہ؟ یہ اسے ناممکن سمجھے ہوئے ہیں لیکن وہ نہ صرف ممکن بلکہ یقیناً آنے ہی والی ہے اور اس وقت کا یا اس کے بعد کا کوئی عمل کسی کو کچھ نفع نہ دے گا اس دن تو جن کی دوستیاں غیر اللہ کے لیے تھیں وہ سب عدوات سے بدل جائیں گی یہاں جو دوستی اللہ کے واسطے تھی وہ باقی اور دائم رہے گی “۔

جیسے خلیل الرحمن علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ» ‏‏‏‏ [ 29-العنكبوت: 25 ] ‏‏‏‏ ” تم نے بتوں سے جو دوستیاں کر رکھی ہیں یہ صرف دنیا کے رہنے تک ہی ہیں قیامت کے دن تو ایک دوسرے کا نہ صرف انکار کریں گے بلکہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور کوئی نہ ہو گا جو تمہاری امداد پر آئے “۔
8283

ابن ابی حاتم میں مروی ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں دو ایماندار جو آپس میں دوست ہوتے ہیں جب ان میں سے ایک کا انتقال ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے جنت کی خوشخبری ملتی ہے تو وہ اپنے دوست کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے اے اللہ فلاں شخص میرا دلی دوست تھا جو مجھے تیرے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتا تھا بھلائی کی ہدایت کرتا تھا برائی سے روکتا تھا اور مجھے یقین دلایا کرتا تھا کہ ایک روز اللہ سے ملنا ہے، پس اے باری تعالیٰ تو اسے راہ حق پر ثابت قدر رکھ یہاں تک کہ اسے بھی تو وہ دکھائے جو تو نے مجھے دکھایا ہے اور اس سے بھی اسی طرح راضی ہو جائے جس طرح مجھ سے راضی ہوا ہے۔ اللہ کی طرف سے جواب ملتا ہے ” تو ٹھنڈے کلیجوں چلا جا اس کے لیے جو کچھ میں نے تیار کیا ہے اگر تو اسے دیکھ لیتا تو تو بہت ہنستا اور بالکل آزردہ نہ ہوتا “۔ پھر جب دوسرا دوست مرتا ہے اور ان کی روحیں ملتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ” تم آپس میں ایک دوسرے کا تعلق بیان کرو “، پس ہر ایک دوسرے سے کہتا ہے کہ یہ میرا بڑا اچھا بھائی تھا اور نہایت نیک ساتھی تھا اور بہت بہتر دوست تھا۔ دو کافر جو آپس میں ایک دوسرے کے دوست تھے جب ان میں سے ایک مرتا ہے اور جہنم کی خبر دیا جاتا ہے تو اسے بھی اپنا دوست یاد آتا ہے اور کہتا ہے باری تعالیٰ فلاں شخص میرا دوست تھا تیری اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی مجھے تعلیم دیتا تھا برائیوں کی رغبت دلاتا تھا بھلائیوں سے روکتا تھا اور تیری ملاقات نہ ہونے کا مجھے یقین دلاتا تھا پس تو اسے میرے بعد ہدایت نہ کرتا کہ وہ بھی وہی دیکھے جو میں نے دیکھا اور اس پر تو اسی طرح ناراض ہو جس طرح مجھ پر غضب ناک ہوا۔ پھر جب دوسرا دوست مرتا ہے اور ان کی روحیں جمع کی جاتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ” تم دونوں ایک دوسرے کے اوصاف بیان کرو “، تو ہر ایک کہتا ہے تو بڑا برا بھائی تھا اور بدترین دوست تھا۔‏‏‏‏
8284

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہد، قتادہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں ہر دوستی قیامت کے دن دشمنی سے بدل جائے گی مگر پرہیزگاروں کی دوستی۔ ابن عساکر میں ہے کہ جن دو شخصوں نے اللہ کے لیے آپس میں دوستانہ کر رکھا ہے خواہ ایک مشرق میں ہو اور دوسرا مغرب میں لیکن قیامت کے دن اللہ انہیں جمع کر کے فرمائے گا کہ ” یہ جسے تو میری وجہ سے چاہتا تھا “۔ [مختصر تاریخ دمشق:79/27:اسنادہ ضعیف] ‏‏‏‏
8285

پھر فرمایا کہ ان متقیوں سے روز قیامت میں کہا جائے گا کہ ” تم خوف و ہراس سے دور ہو۔ ہر طرح امن چین سے رہو سہو یہ ہے تمہارے ایمان و اسلام کا بدلہ “۔ یعنی باطن میں یقین و اعتقاد کامل۔ اور ظاہر میں شریعت پر عمل۔

معتمر بن سلیمان رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن جب کہ لوگ اپنی اپنی قبروں سے کھڑے کئے جائیں گے۔ تو سب کے سب گھبراہٹ اور بے چینی میں ہوں گے اس وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ ” اے میرے بندو! آج کے دن نہ تم پر خوشہ ہے نہ خوف “، تو تمام کے تمام اسے عام سمجھ کر خوش ہو جائیں گے وہیں منادی کہے گا ” وہ لوگ جو دل سے ایمان لائے تھے اور جسم سے نیک کام کئے تھے “، اس وقت سوائے سچے پکے مسلمانوں کے باقی سب مایوس ہو جائیں گے پھر ان سے کہا جائے گا کہ تم نعمت وسعادت کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔‏‏‏‏ سورۃ الروم میں اس کی تفسیر گذر چکی ہے۔
8286



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.