تفسير ابن كثير



سورۃ الدخان

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ[30] مِنْ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِنَ الْمُسْرِفِينَ[31] وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ[32] وَآتَيْنَاهُمْ مِنَ الْآيَاتِ مَا فِيهِ بَلَاءٌ مُبِينٌ[33]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا ہم نے بنی اسرائیل کو ذلیل کرنے والے عذاب سے نجات دی۔ [30] فرعون سے، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں میںسے ایک سرکش شخص تھا۔ [31] اور بلا شبہ یقینا ہم نے انھیں علم کی بنا پر جہانوں سے چن لیا۔ [32] اور ہم نے انھیں وہ نشانیاں دیں جن میں واضح آزمائش تھی۔ [33]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور بےشک ہم نے (ہی) بنی اسرائیل کو (سخت) رسوا کن سزا سے نجات دی [30] (جو) فرعون کی طرف سے (ہو رہی) تھی۔ فیالواقع وه سرکش اور حد سے گزر جانے والوں میں سے تھا [31] اور ہم نے دانستہ طور پر بنی اسرائیل کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی [32] اور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی [33]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی [30] (یعنی) فرعون سے۔ بےشک وہ سرکش (اور) حد سے نکلا ہوا تھا [31] اور ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا [32] اور ان کو ایسی نشانیاں دی تھیں جن میں صریح آزمائش تھی [33]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 30، 31، 32، 33،

باب

اس کے بعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ «إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ» [ 28-القص: 4 ] ‏‏‏‏ ہم نے انہیں فرعون جیسے متکبر حدود شکن کے ذلیل عذابوں سے نجات دی اس نے بنی اسرائیل کو پست و خوار کر رکھا تھا ذلیل خدمتیں ان سے لیتا تھا اور اپنے نفس کو تولتا رہتا تھا خودی اور خود بینی میں لگا ہوا تھا بیوقوفی سے کسی چیز کی حد بندی کا خیال نہیں کرتا تھا اللہ کی زمین میں سرکشی کئے ہوئے تھا۔ اور ان بدکاریوں میں اس کی قوم بھی اس کے ساتھ تھی پھر بنی اسرائیل پر ایک اور مہربانی کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس زمانے کے تمام لوگوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ہر زمانے کو عالم کہا جاتا ہے یہ مراد نہیں کہ تمام اگلوں پچھلوں پر انہیں بزرگی دی یہ آیت بھی اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمان ہے «قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ» [ 7- الاعراف: 144 ] ‏‏‏‏ فرمایا "اے موسیٰ علیہ السلام، میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو پس جو کچھ میں تجھے دوں اسے لے اور شکر بجالا"۔
8353

جیسے مریم علیہا السلام کے لیے فرمایا «وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ» [ سورة آل عمران 3: 42 ] ‏‏‏‏ اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس زمانے کی تمام عورتوں پر آپ کو فضیلت ہے اس لیے کہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا ان سے یقیناً افضل ہیں یا کم ازکم برابر۔ اسی طرح آسیہ بنت مزاحم جو فرعون کی بیوی تھیں اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی فضیلت شوربے میں بھگوئی روٹی کی اور کھانوں پر۔ [صحیح مسلم:70-89] ‏‏‏‏

پھر بنی اسرائیل پر ایک اور احسان بیان ہو رہا ہے کہ ہم نے انہیں وہ حجت و برہان دلیل و نشان اور معجزات و کرامات عطا فرمائے جن میں ہدایت کی تلاش کرنے والوں کے لیے صاف صاف امتحان تھا۔
8354



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.