تفسير ابن كثير



سورۃ الأحقاف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ[7] أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ كَفَى بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ[8] قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ[9]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اورجب ان کے سامنے ہماری واضح آیا ت پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا حق کے بارے میں، جب وہ ان کے پاس آیا، کہتے ہیں یہ کھلا جادو ہے۔ [7] یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے، کہہ دے اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے توتم میرے لیے اللہ کے مقابلے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے، وہ ان باتوں کو زیادہ جاننے والا ہے جن میں تم مشغول ہوتے ہو، وہی میرے درمیان اور تمھارے درمیان گواہ کے طور پر کافی ہے اور وہی بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ [8] کہہ دے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ (یہ کہ) تمھارے ساتھ (کیا)، میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے اور میں تو بس واضح ڈرانے والا ہوں۔ [9]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور انہیں جب ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو منکر لوگ سچی بات کو جب کہ ان کے پاس آچکی، کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے [7] کیا وه کہتے ہیں کہ اسے تو اس نے خود گھڑ لیا ہے آپ کہہ دیجئے! کہ اگر میں ہی اسے بنا ﻻیا ہوں تو تم میرے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے، تم اس (قرآن) کے بارے میں جو کچھ کہہ سن رہے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے، میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے وہی کافی ہے، اور وه بخشنے واﻻ مہربان ہے [8] آپ کہہ دیجئے! کہ میں کوئی بالکل انوکھا پیغمبر تو نہیں نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور میں تو صرف علیاﻻعلان آگاه کر دینے واﻻ ہوں [9]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کافر حق کے بارے میں جب ان کے پاس آچکا کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے [7] کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس کو از خود بنا لیا ہے۔ کہہ دو کہ اگر میں نے اس کو اپنی طرف سے بنایا ہو تو تم خدا کے سامنے میرے (بچاؤ کے) لئے کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ وہ اس گفتگو کو خوب جانتا ہے جو تم اس کے بارے میں کرتے ہو۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے۔ اور وہ بخشنے والا مہربان ہے [8] کہہ دو کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آیا۔ اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا (کیا جائے گا) میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے [9]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 7، 8، 9،

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار بےبسی ٭٭

مشرکوں کی سرکشی اور ان کا کفر بیان ہو رہا ہے کہ جب انہیں اللہ کی ظاہر و باطن واضح اور صاف آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے، تکذیب و افترا، ضلالت و کفر گویا ان کا شیوہ ہو گیا ہے۔ جادو کہہ کر ہی بس نہیں کرتے بلکہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اسے تو محمد نے گھڑ لیا ہے۔ پس نبی کی زبانی اللہ جواب دلواتا ہے کہ اگر میں نے ہی اس قرآن کو بنایا ہے اور میں اس کا سچا نبی نہیں تو یقینًا وہ مجھے میرے اس جھوٹ اور بہتان پر سخت تر عذاب کرے گا اور پھر تم کیا سارے جہان میں کوئی ایسا نہیں جو مجھے اس کے عذابوں سے چھڑا سکے۔

جیسے اور جگہ ہے «قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِسَالَاتِهِ» [72-الجن:23،22] ‏‏‏‏، یعنی تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کے ہاتھ سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ اس کے سوا کہیں اور مجھے پناہ کی جگہ مل سکے گی لیکن میں اللہ کی تبلیغ اور اس کی رسالت کو بجا لاتا ہوں۔

اور جگہ ہے «وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ» [69-الحاقة:47-44] ‏‏‏‏، یعنی اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا، تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی بھی اسے نہ بچا سکتا۔

پھر کفار کو دھمکایا جا رہا ہے کہ تمہاری گفتگو کا پورا علم اس علیم اللہ کو ہے، وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اس کی دھمکی کے بعد انہیں توبہ اور انابت کی رغبت دلائی جا رہی ہے اور فرماتا ہے، وہ غفور و رحیم ہے، اگر تم اس کی طرف رجوع کرو اپنے کرتوت سے باز آؤ تو وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم کرے گا۔ سورۃ الفرقان میں بھی اسی مضمون کی آیت ہے۔

فرمان ہے «وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا» [25-الفرقان:6،5] ‏‏‏‏، یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھ لی ہیں اور صبح شام لکھائی جا رہی ہیں تو کہہ دے کہ اسے اس اللہ نے اتارا ہے جو ہر پوشیدہ کو جانتا ہے خواہ آسمانوں میں ہو، خواہ زمین میں ہو وہ غفور و رحیم ہے۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں دنیا میں کوئی پہلا نبی تو نہیں، مجھ سے پہلے بھی تو دنیا میں لوگوں کی طرف رسول آتے رہے پھر میرے آنے سے تمہیں اس قدر اچنبھا کیوں ہوا؟ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا؟

بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کے بعد آیت «لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا» [48-الفتح:2] ‏‏‏‏، اتری ہے۔ اسی طرح عکرمہ، حسن، قتادہ رحمہم اللہ علیہم بھی اسے منسوخ بتاتے ہیں۔

یہ بھی مروی ہے کہ جب آیت بخشش اتری جس میں فرمایا گیا تاکہ اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ بخشے تو ایک صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول ! یہ تو اللہ نے بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرنے والا ہے پس وہ ہمارے ساتھ کیا کرنے والا ہے؟ اس پر آیت «لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا» [48-الفتح:5] ‏‏‏‏ اتری یعنی تاکہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، صحیح حدیث سے بھی یہ تو ثابت ہے کہ مومنوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ کو مبارک ہو، فرمائیے! ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری [صحیح مسلم:1786] ‏‏‏‏

ضحاک رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا حکم دیا جاؤں اور کس چیز سے روک دیا جاؤں؟ امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آخرت کا انجام تو مجھے قطعًا معلوم ہے کہ میں جنت میں جاؤں گا، ہاں دنیوی حال معلوم نہیں کہ اگلے بعض انبیاء کی طرح قتل کیا جاؤں یا اپنی زندگی کے دن پورے کر کے اللہ کے ہاں جاؤں؟ اور اسی طرح میں نہیں کہہ سکتا کہ تمہیں دھنسایا جائے یا تم پر پتھر برسائے جائیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:277/11] ‏‏‏‏
8439

امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو معتبر کہتے ہیں اور فی الواقع ہے بھی یہ ٹھیک۔ آپ بالیقین جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو جنت میں ہی جائیں گے اور دنیا کی حالت کے انجام سے آپ بےخبر تھے کہ انجام کار آپ کا اور آپ کے مخالفین قریش کا کیا حال ہو گا؟ آیا وہ ایمان لائیں گے یا کفر پر ہی رہیں گے اور عذاب کئے جائیں گے یا بالکل ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے۔

لیکن جو حدیث مسند احمد میں ہے [مسند احمد:436/6:صحیح] ‏‏‏‏ سیدہ ام العلاء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی کہ جس وقت مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی انصاریوں میں تقسیم ہو رہے تھے اس وقت ہمارے حصہ میں سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آئے، آپ ہمارے ہاں بیمار ہوئے اور فوت بھی ہو گئے جب ہم آپ کو کفن پہنا چکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لا چکے، تو میرے منہ سے نکل گیا، اے ابوالسائب! اللہ تجھ پر رحم کرے میری تو تجھ پر گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناً تیرا اکرام ہی کرے گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ یقیناً اس کا اکرام ہی کرے گا۔‏‏‏‏ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! پر میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے کچھ نہیں معلوم پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! ان کے پاس تو ان کے رب کی طرف کا یقین آ پہنچا اور مجھے ان کیلئے بھلائی اور خیر کی امید ہے، قسم ہے اللہ کے باوجود رسول ہونے کے میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ اس پر میں نے کہا: اللہ کی قسم اب اس کے بعد میں کسی کی برات نہیں کروں گی اور مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا، لیکن میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی ایک نہر بہہ رہی ہے، میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے اعمال ہیں ، یہ حدیث بخاری میں ہے [صحیح بخاری:1243] ‏‏‏‏ مسلم میں نہیں اور اس کی ایک سند میں ہے میں نہیں جانتا باوجود یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ دل کو تو کچھ ایسا لگتا ہے کہ یہی الفاظ موقعہ کے لحاظ سے ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی یہ جملہ ہے کہ مجھے اس بات سے بڑا صدمہ ہوا۔

الغرض یہ حدیث اور اسی کی ہم معنی اور حدیثیں دلالت ہیں اس امر پر کہ کسی معین شخص کے جنتی ہونے کا قطعی علم کسی کو نہیں، نہ کسی کو ایسی بات زبان سے کہنی چاہیئے۔ بجز ان بزرگوں کے جن کے نام لے کر شارع علیہ السلام نے انہیں جنتی کہا ہے، جیسے عشرہ مبشرہ اور ابن سلام اور عمیصا اور بلال اور سراقہ اور عبداللہ بن عمرو بن حرام جو جابر کے والد ہیں اور وہ ستر قاری جو بیرمعونہ کی جنگ میں شہید کئے گئے اور زید بن حارثہ اور جعفر اور ابن رواحہ اور ان جیسے اور بزرگ رضی اللہ عنہم اجمعین۔

پھر فرماتا ہے اے نبی! تم کہہ دو کہ میں تو صرف اس وحی کا مطیع ہوں جو اللہ کی جناب سے میری جانب آئے اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں کہ کھول کھول کر ہر شخص کو آگاہ کر رہا ہوں ہر عقلمند میرے منصب سے باخبر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
8440



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.