تفسير ابن كثير



سورۃ الأحقاف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ[21] قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ[22] قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ[23] فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ[24] تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَى إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ[25]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور عاد کے بھائی کو یاد کر جب اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا، جب کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کئی ڈرانے والے گزر چکے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، بے شک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ [21] انھوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے ہٹا دے، سو ہم پر وہ( عذاب) لے آ جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو سچوں سے ہے۔ [22] اس نے کہا یہ علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور میں تمھیں وہ پیغام پہنچاتا ہوں جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے اور لیکن میں تمھیں ایسے لوگ دیکھتا ہوں کہ تم جہالت برتتے ہو۔ [23] تو جب انھوں نے اسے ایک بادل کی صورت میں اپنی وادیوں کا رخ کیے ہوئے دیکھا تو انھوں نے کہا یہ بادل ہے جو ہم پر مینہ برسانے والا ہے۔ بلکہ یہ وہ(عذاب) ہے جو تم نے جلدی مانگا تھا، آندھی ہے، جس میں دردناک عذاب ہے۔ [24] جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی، پس وہ اس طرح ہو گئے کہ ان کے رہنے کی جگہوں کے سوا کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی، اسی طرح ہم مجرم لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ [25]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی عبادت نہ کرو، بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں [21] قوم نے جواب دیا، کیا آپ ہمارے پاس اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں اپنے معبودوں (کی پرستش) سے باز رکھیں؟ پس اگر آپ سچے ہیں تو جس عذاب کا آپ وعده کرتے ہیں اسے ہم پر ﻻ ڈالیں [22] (حضرت ہود نے) کہا (اس کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، میں تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا تھا وه تمہیں پہنچا رہا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو [23] پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے تو کہنے لگے، یہ ابر ہم پر برسنے واﻻ ہے، (نہیں) بلکہ دراصل یہ ابر وه (عذاب) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے، ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے [24] جو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کر دے گی، پس وه ایسے ہوگئے کہ بجر ان کے مکانات کے اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ گنہگاروں کے گروه کو ہم یوں ہی سزا دیتے ہیں [25]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور (قوم) عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کرو کہ جب انہوں نے اپنی قوم کو سرزمین احقاف میں ہدایت کی اور ان سے پہلے اور پیچھے بھی ہدایت کرنے والے گزرچکے تھے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا ڈر لگتا ہے [21] کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم کو ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو اسے ہم پر لے آؤ [22] (انہوں نے) کہا کہ (اس کا) علم تو خدا ہی کو ہے۔ اور میں تو جو (احکام) دے کر بھیجا گیا ہوں وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی میں پھنس رہے ہو [23] پھر جب انہوں نے اس (عذاب کو) دیکھا کہ بادل (کی صورت میں) ان کے میدانوں کی طرف آرہا ہے تو کہنے لگے یہ تو بادل ہے جو ہم پر برس کر رہے گا۔ (نہیں) بلکہ (یہ) وہ چیز ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے یعنی آندھی جس میں درد دینے والا عذاب بھرا ہوا ہے [24] ہر چیز کو اپنے پروردگار کے حکم سے تباہ کئے دیتی ہے تو وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا۔ گنہگار لوگوں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں [25]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23، 24، 25،

قوم عاد کی تباہی کے اسباب ٭٭

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے تو آپ اگلے انبیاء کے واقعات یاد کر لیجئے کہ ان کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی عادیوں کے بھائی سے مراد ہود پیغمبر ہیں علیہ السلام والصلوۃ۔ انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عاد اولیٰ کی طرف بھیجا تھا جو «احقاف» میں رہتے تھے «احقاف» جمع ہے «حقف» کی اور «حقف» کہتے ہیں ریت کے پہاڑ کو۔ مطلق پہاڑ اور غار اور حضر موت کی وادی جس کا نام برہوت ہے جہاں کفار کی روحیں ڈالی جاتی ہیں یہ مطلب بھی «احقاف» کا بیان کیا گیا ہے قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یمن میں سمندر کے کنارے ریت کے ٹیلوں میں ایک جگہ تھی جس کا نام شحر تھا یہاں یہ لوگ آباد تھے، [تفسیر ابن جریر الطبری:291/11] ‏‏‏‏

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے کہ جب دعا مانگے تو اپنے نفس سے شروع کرے اس میں ایک حدیث لائے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہم پر اور عادیوں کے بھائی پر رحم کرے ۔ [سنن ابن ماجہ:3852،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ اللہ عزوجل نے ان کے اردگرد کے شہروں میں بھی اپنے رسول علیہم السلام مبعوث فرمائے تھے۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ» ۔ [2-البقرة:66] ‏‏‏‏

اور جیسے اللہ جل وعلا کا فرمان ہے «فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ» ۔ [41-فصلت:14،13] ‏‏‏‏
8464

پھر فرماتا ہے کہ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم موحد بن جاؤ ورنہ تمہیں اس بڑے بھاری دن میں عذاب ہو گا۔ جس پر قوم نے کہا: کیا تو ہمیں ہمارے معبودوں سے روک رہا ہے؟ جا جس عذاب سے تو ہمیں ڈرا رہا ہے وہ لے آ۔ یہ تو اپنے ذہن میں اسے محال جانتے تھے تو جرات کر کے جلد طلب کیا۔

جیسے کہ اور آیت میں ہے «يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا» [42-الشورى:18] ‏‏‏‏ یعنی ایمان نہ لانے والے ہمارے عذابوں کے جلد آنے کی خواہش کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں ان کے پیغمبر نے کہا کہ اللہ ہی کو بہتر علم ہے اگر وہ تمہیں اسی لائق جانے گا تو تم پر عذاب بھیج دے گا۔ میرا منصب تو صرف اتنا ہی ہے کہ میں اپنے رب کی رسالت تمہیں پہنچا دوں لیکن میں جانتا ہوں کہ تم بالکل بےعقل اور بیوقوف لوگ ہو، اب اللہ کا عذاب آ گیا انہوں نے دیکھا کہ ایک کالا ابر ان کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے چونکہ خشک سالی تھی، گرمی سخت تھی، یہ خوشیاں منانے لگے کہ اچھا ہوا ابر چڑھا ہے اور اسی طرف رخ ہے، اب بارش برسے گی۔ دراصل ابر کی صورت میں یہ وہ قہر الٰہی تھا جس کے آنے کی وہ جلدی مچا رہے تھے، اس میں وہ عذاب تھا، جسے ہود علیہ السلام سے یہ طلب کر رہے تھے وہ عذاب ان کی بستیوں کی تمام ان چیزوں کو بھی جن کی بربادی ہونے والی تھی تہس نہس کرتا ہوا آیا اور اسی کا اسے حکم تھا۔

جیسے اور آیت میں ہے «مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ» [51-الذاريات:42] ‏‏‏‏ یعنی جس چیز پر وہ گزر جاتی تھی اسے چورا چورا کر دیتی تھی، پس سب کے سب ہلاک و تباہ ہو گئے ایک بھی نہ بچ سکا۔

پھر فرماتا ہے ہم اسی طرح ان کا فیصلہ کرتے ہیں جو ہمارے رسولوں کو جھٹلائیں اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کریں ایک بہت ہی غریب حدیث میں ان کا جو قصہ آیا ہے وہ بھی سن لیجئے۔
8465

سیدنا حارث بکری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں سیدنا علا بن حضرمی رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہا تھا۔ ربذہ میں مجھے بنو تمیم کی ایک بڑھیا ملی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی، مجھ سے کہنے لگی، اے اللہ کے بندے! میرا ایک کام اللہ کے رسول سے ہے، کیا تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دے گا؟ میں نے اقرار کیا اور انہیں اپنی سواری پر بٹھا لیا اور مدینہ شریف پہنچا میں نے دیکھا کہ مسجد نبوی لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے، سیاہ رنگ جھنڈا لہرا رہا ہے اور بلال تلوار لٹکائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہیں میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ تو لوگوں نے مجھ سے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو کسی طرف بھیجنا چاہتے ہیں میں ایک طرف بیٹھ گیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل یا اپنے خیمے میں تشریف لے گئے تو میں بھی گیا اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر آپ کی خدمت میں باریاب ہوا۔ سلام علیک کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اور بنو تمیم کے درمیان کچھ رنجش تھی؟ میں نے کہا: ہاں اور ہم ان پر غالب رہے تھے اور اب میرے اس سفر میں بنو تمیم کی ایک نادار بڑھیا راستے میں مجھے ملی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اسے اپنے ساتھ آپ کی خدمت میں پہنچاؤں چنانچہ میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں اور وہ دروازہ پر منتظر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بھی اندر بلا لو، چنانچہ وہ آ گئیں میں نے کہا: یا رسول اللہ ! اگر آپ ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کر سکتے ہیں تو اسے کر دیجئیے، اس پر بڑھیا کو حمیت لاحق ہوئی اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بول اٹھی کہ پھر یا رسول اللہ ! آپ کا مضطر کہاں قرار کرے گا؟ میں نے کہا: سبحان اللہ میری تو وہی مثل ہوئی کہ اپنے پاؤں میں آپ ہی کلہاڑی ماری مجھے کیا خبر تھی کہ یہ میری ہی دشمنی کرے گی؟ ورنہ میں اسے لاتا ہی کیوں؟ اللہ کی پناہ، واللہ! کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی مثل عادیوں کے قاصد کے ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ عادیوں کے قاصد کا واقعہ کیا ہے؟ باوجود یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ سے بہ نسبت میرے بہت زیادہ واقف تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر میں نے وہ قصہ بیان کیا کہ عادیوں کی بستیوں میں جب سخت قحط سالی ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک قاصد قیل نامی روانہ کیا، یہ راستے میں معاویہ بن بکر کے ہاں آ کر ٹھہرا اور شراب پینے لگا اور اس کی دونوں کنیزوں کا گانا سننے میں جن کا نام جرادہ تھا اس قدر مشغول ہوا کہ مہینہ بھر تک یہیں پڑا رہا پھر چلا اور جبال مہرہ میں جا کر اس نے دعا کی کہ اللہ تو خوب جانتا ہے میں کسی مریض کی دوا کے لیے یا کسی قیدی کا فدیہ ادا کرنے کے لیے تو آیا نہیں الٰہی عادیوں کو وہ پلا جو تو انہیں پلانے والا ہے۔ چنانچہ چند سیاہ رنگ بادل اٹھے اور ان میں سے ایک آواز آئی کہ ان میں سے جسے تو چاہے پسند کر لے چنانچہ اس نے سخت سیاہ بادل کو پسند کر لیا اسی وقت ان میں سے ایک آواز آئی کہ اسے راکھ اور خاک بنانے والا کر دے تاکہ عادیوں میں سے کوئی باقی نہ رہے۔ کہا اور مجھے جہاں تک علم ہوا ہے یہی ہے کہ ہواؤں کے مخزن میں سے صرف پہلے ہی سوراخ سے ہوا چھوڑی گئی تھی جیسے میری اس انگوٹھی کا حلقہ اسی سے سب ہلاک ہو گئے۔ ابووائل کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک نقل ہے عرب میں دستور تھا کہ جب کسی قاصد کو بھیجتے تو کہہ دیتے کہ عادیوں کے قاصد کی طرح نہ کرنا ۔ [مسند احمد:482/3:حسن] ‏‏‏‏ یہ روایت ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔
8466

جیسے کہ سورۃ الاعراف کی تفسیر میں گزرا مسند احمد میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کھل کھلا کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے مسوڑھے نظر آئیں۔ آپ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے اور جب ابر اٹھتا اور آندھی چلتی تو آپ کے چہرے سے فکر کے آثار نمودار ہو جاتے۔ چنانچہ ایک روز میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! لوگ تو ابروباد کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بارش برسے گی لیکن آپ کی اس کے بالکل برعکس حالت ہو جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ میں اس بات سے کہ کہیں اس میں عذاب ہو کیسے مطمئن ہو جاؤں؟ ایک قوم ہوا ہی سے ہلاک کی گئی ایک قوم نے عذاب کے بادل کو دیکھ کہا تھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔‏‏‏‏ صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے ۔ [صحیح بخاری:4828] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی آسمان کے کسی کنارے سے ابر اٹھتا ہوا دیکھتے تو اپنے تمام کام چھوڑ دیتے اگرچہ نماز میں ہوں اور یہ دعا پڑھتے «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَآ فِیہ» اللہ میں تجھ سے اس برائی سے پناہ چاہتا ہوں جو اس میں ہے، پس اگر یہ کھل جاتا تو اللہ عزوجل کی حمد کرتے اور اگر برس جاتا تو یہ دعا پڑھتے «اللَّهُمَّ صَیِّباً نَّافِعًا» اے اللہ! اسے نفع دینے والا اور برسنے والا بنا دے ۔ [مسند احمد:190/6:صحیح] ‏‏‏‏
8467

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جب ہوائیں چلتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرِهَا وَخَيْرِ مَا فِیھَا وَخَيْرَ مآ اَرسَلتَ بِہِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرّ مَآ فِیھَا وَشَرِ مَآ اَرسَلتَ بِہِ» یا اللہ! میں تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس کو یہ ساتھ لے کر آئی ہے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں۔ اور جب ابر اٹھتا تو آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا، کبھی اندر، کبھی باہر آتے کبھی جاتے۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ کی یہ فکرمندی دور ہو جاتی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے سمجھ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ عائشہ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں یہ اسی طرح نہ ہو جس طرح قوم ہود نے اپنی طرف بادل بڑھتا دیکھ کر خوشی سے کہا تھا کہ یہ ابر ہمیں سیراب کرے گا ۔ [صحیح مسلم:899,15] ‏‏‏‏

سورۃ الاعراف میں عادیوں کی ہلاکت کا اور ہود کا پورا واقعہ گزر چکا ہے اس لیے ہم اسے یہاں نہیں دوہراتے «فللہ الحمد والمنہ» طبرانی کی مرفوع حدیث میں ہے کہ عادیوں پر اتنی ہی ہوا کھولی گئی تھی جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے، یہ ہوا پہلے دیہات والوں اور بادیہ نشینوں پر آئی وہاں سے شہری لوگوں پر آئی جسے دیکھ کر یہ کہنے لگے کہ یہ ابر جو ہماری طرف بڑھا چلا آ رہا ہے یہ ضرور ہم پر بارش برسائے گا لیکن اس میں جنگلی لوگ تھے جو ان شہریوں پر گرا دئیے گئے اور سب ہلاک ہو گئے، ہوا کے خزانچیوں پر ہوا کی سرکشی اس وقت اتنی تھی کہ دروازوں کے سوراخوں سے وہ نکلی جا رہی تھی ۔ [طبرانی کبیر:12416:ضعیف] ‏‏‏‏ «واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم»
8468



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.