تفسير ابن كثير



سورۃ محمد

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ[5] وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ[6] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ[7] وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ[8] ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ[9]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہ ضرور انھیں راستہ دکھائے گا اور ان کا حال درست کر دے گا۔ [5] اور انھیں اس جنت میں داخل کرے گا جس کی اس نے انھیں پہچان کروا دی ہے۔ [6] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم جما دے گا۔ [7] اور جن لوگوں نے کفر کیا سو ان کے لیے ہلاکت ہے اور اس نے ان کے اعمال برباد کر دیے۔ [8] یہ اس لیے کہ انھوں نے اس چیز کو نا پسند کیا جو اللہ نے نازل کی تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔ [9]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] انہیں راه دکھائے گا اور ان کے حاﻻت کی اصلاح کر دے گا [5] اور انہیں اس جنت میں لے جائے گا جس سے انہیں شناسا کر دیا ہے [6] اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ﺛابت قدم رکھے گا [7] اور جو لوگ کافر ہوئے انہیں ہلاکی ہو اللہ ان کے اعمال غارت کردے گا [8] یہ اس لئے کہ وه اللہ کی نازل کرده چیز سے ناخوش ہوئے، پس اللہ تعالیٰ نے (بھی) ان کے اعمال ضائع کر دیئے [9]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا اور ان کی حالت درست کر دے گا [5] اور ان کو بہشت میں جس سے انہیں شناسا کر رکھا ہے داخل کرے گا [6] اے اہل ایمان! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا [7] اور جو کافر ہیں ان کے لئے ہلاکت ہے۔ اور وہ ان کے اعمال کو برباد کر دے گا [8] یہ اس لئے کہ خدا نے جو چیز نازل فرمائی انہوں نے اس کو ناپسند کیا تو خدا نے بھی ان کے اعمال اکارت کردیئے [9]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 5، 6، 7، 8، 9،

باب

پھر فرماتا ہے انہیں اللہ جنت کی راہ سمجھا دے گا۔ جیسے یہ آیت «اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ» [10-یونس:9] ‏‏‏‏ یعنی ” جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کے ایمان کے باعث ان کا رب انہیں ان جنتوں کی طرف رہبری کرے گا جو نعمتوں سے پر ہیں اور جن کے چپے چپے میں چشمے بہہ رہے ہیں “۔ اللہ ان کے حال اور ان کے کام سنوار دے گا اور جن جنتوں سے انہیں پہلے ہی آگاہ کر چکا ہے اور جن کی طرف ان کی رہبری کر چکا ہے آخر انہی میں انہیں پہنچائے گا۔

یعنی ہر شخص اپنے مکان اور پانی کی جگہ کو جنت میں اس طرح پہچان لے گا جیسے دنیا میں پہچان لیا کرتا تھا۔ انہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے گی یہ معلوم ہو گا گویا شروع پیدائش سے یہیں مقیم ہیں۔

ابن ابی حاتم میں ہے کہ جس انسان کے ساتھ اس کے اعمال کا محافظ جو فرشتہ تھا وہی اس کے آگے آگے چلے گا جب یہ اپنی جگہ پہنچے گا تو ازخود پہچان لے گا کہ میری جگہ یہی ہے۔ یونہی پھر اپنی زمین میں سیر کرتا ہوا جب سب دیکھ چکے گا تب فرشتہ ہٹ جائے گا اور یہ اپنی لذتوں میں مشغول ہو جائے گا ۔

صحیح بخاری کی مرفوع حدیث میں ہے جب مومن آگ سے چھوٹ جائیں گے تو جنت، دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر جو مظالم تھے ان کے بدلے اتار لیے جائیں گے، جب بالکل پاک صاف ہو جائیں گے، تو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی، قسم اللہ کی جس طرح تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دنیوی گھر کی راہ جانتا ہے اور گھر کو پہچانتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ لوگ اپنی منزل اور اپنی جگہ سے واقف ہوں گے ۔ [صحیح بخاری:6535] ‏‏‏‏
8508

پھر فرماتا ہے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا۔ جیسے اور جگہ ہے «وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ» [22-الحج:40] ‏‏‏‏ ” اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا “ اس لیے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اسی جنس کی جزا ہوتی ہے اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا۔

حدیث میں ہے جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جما دے گا ۔

پھر فرماتا ہے ” کافروں کا حال بالکل برعکس ہے یہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں گے “۔ حدیث میں ہے دینار درہم اور کپڑے لتے کا بندہ ٹھوکر کھا گیا وہ برباد ہوا اور ہلاک ہوا وہ اگر بیمار پڑ جائے تو اللہ کرے اسے شفاء بھی نہ ہو ۔ [صحیح بخاری:2887] ‏‏‏‏

ایسے لوگوں کے نیک اعمال بھی اکارت ہیں اس لیے کہ یہ قرآن و حدیث سے ناخوش ہیں نہ اس کی عزت و عظمت ان کے دل میں نہ ان کا قصد و تسلیم کا ارادہ۔ پس ان کے جو کچھ اچھے کام تھے اللہ نے انہیں بھی غارت کر دیا۔
8509



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.