تفسير ابن كثير



سورۃ الذاريات

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ[31] قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ[32] لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ طِينٍ[33] مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ[34] فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ[35] فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ[36] وَتَرَكْنَا فِيهَا آيَةً لِلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الْأَلِيمَ[37]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہا تو اے بھیجے ہوئے (قاصدو!) تمھارا معاملہ کیا ہے؟ [31] انھوں نے کہا بے شک ہم کچھ گناہ گار لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ [32] تاکہ ہم ان پر مٹی کے پتھر (کھنگر) پھینکیں۔ [33] جن پر تیرے رب کے ہاں حد سے بڑھنے والوں کے لیے نشان لگائے ہوئے ہیں۔ [34] سو ہم نے اس (بستی) میں ایمان والوں سے جو بھی تھا نکال لیا۔ [35] تو ہم نے اس میں مسلمانوں کے ایک گھر کے سوا کوئی نہ پایا۔ [36] اور ہم نے اس میں ان لوگوں کے لیے ایک نشانی چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔ [37]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] (حضرت ابرہیم علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو!) تمہارا کیا مقصد ہے؟ [31] انہوں نے جواب دیا کہ ہم گناه گار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں [32] تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں [33] جو تیرے رب کی طرف سے نشان زده ہیں، ان حد سے گزر جانے والوں کے لیے [34] پس جتنے ایمان والے وہاں تھے ہم نے انہیں نکال لیا [35] اور ہم نے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر پایا [36] اور وہاں ہم نے ان کے لیے جو درد ناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک (کامل) علامت چھوڑی [37]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ابراہیمؑ نے کہا کہ فرشتو! تمہارا مدعا کیا ہے؟ [31] انہوں نے کہا کہ ہم گنہگار لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں [32] تاکہ ان پر کھنگر برسائیں [33] جن پر حد سے بڑھ جانے والوں کے لئے تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان کردیئے گئے ہیں [34] تو وہاں جتنے مومن تھے ان کو ہم نے نکال لیا [35] اور اس میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا [36] اور جو لوگ عذاب الیم سے ڈرتے ہیں ان کے لئے وہاں نشانی چھوڑ دی [37]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 31، 32، 33، 34، 35، 36، 37،

ابراھیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کی آمد ٭٭

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ” جب ان نووارد مہمانوں سے ابراہیم علیہ السلام کا تعارف ہوا اور دہشت جاتی رہی “، بلکہ ان کی زبانی ایک بہت بڑی خوشخبری بھی سن چکے اور اپنی بردباری، اللہ ترسی اور دردمندی کی وجہ سے اللہ کی جناب میں قوم لوط کی سفارش بھی کر چکے اور اللہ کے ہاں کے حتمی وعدے کا اعلان بھی سن چکے، اس کے بعد جو ہوا اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ نے ان فرشتوں سے دریافت فرمایا کہ آپ لوگ کس مقصد سے آئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ قوم لوط کے گنہگاروں کو تاخت تاراج کرنے کے لیے ہمیں بھیجا گیا ہے ہم ان پر سنگ باری اور پتھراؤ کریں گے ان پتھروں کو ان پر برسائیں گے جن پر اللہ کے حکم سے پہلے ہی ان کے نام لکھے جا چکے ہیں اور ہر ایک گنہگار کے لیے الگ الگ پتھر مقرر کر دئیے گئے ہیں۔

سورۃ العنکبوت میں گزر چکا ہے کہ «قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَن فِيهَا لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَ‌أَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِ‌ينَ» [29-العنكبوت:32] ‏‏‏‏ یہ سن کر خلیل الرحمن علیہ السلام نے فرمایا کہ وہاں تو لوط ہیں پھر وہ بستی کی بستی کیسے غارت کر دی جائے گی؟ فرشتوں نے کہا اس کا علم ہمیں بھی ہے ہمیں حکم مل چکا ہے کہ ہم انہیں اور ان کے ساتھ کے گھرانے کے تمام ایمان داروں کو بچا لیں ہاں ان کی بیوی نہیں بچ سکتی وہ بھی مجرموں کے ساتھ اپنے جرم کے بدلے ہلاک کر دی جائے گی۔

اسی طرح یہاں بھی ارشاد ہے کہ ” اس بستی میں جتنے بھی مومن تھے سب کو بچا لیا گیا “، اس سے بھی مراد لوط علیہ السلام اور ان کے گھرانے کے لوگ ہیں سوائے ان کی بیوی کے، جو ایمان نہیں لائی تھیں۔
8803

چنانچہ فرما دیا گیا کہ ” وہاں سوائے ایک گھر کے اور گھر مسلمان تھا ہی نہیں “۔ یہ دونوں آیتیں دلیل ہیں ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ ایمان و اسلام کی «مسمٰی» ایک ہی ہے۔ اس لئے کہ یہاں انہی لوگوں کو مومن کہا گیا ہے اور پھر انہی کو مسلمان کہا گیا ہے۔

معتزلہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ ایک ہی چیز ہے جسے ایمان بھی کہا جاتا ہے اور اسلام بھی، لیکن یہ استدلال ضعیف ہے اس لیے کہ یہ لوگ مومن تھے اور یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ہر مومن مسلمان ہوتا ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہوتا۔

پس حال کی خصوصیت کی وجہ سے انہیں مومن مسلم کہا گیا ہے اس سے عام طور پر یہ بات نہیں ہوتا کہ ہر مسلم مومن ہے۔

(‏‏‏‏امام بخاری اور دیگر محدثین کا مذہب ہے کہ جب اسلام حقیقی اور سچا اسلام ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اس صورت میں ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے ہاں جب اسلام حقیقی طور پر نہ ہو تو بیشک اسلام ایمان میں فرق ہے صحیح بخاری شریف کتاب الایمان ملاحظہ ہو۔ مترجم)

پھر فرماتا ہے کہ ” ان کی آباد و شاد بستیوں کو عذاب سے برباد کر کے انہیں سڑے ہوئے بدبودار کھنڈر بنا دینے میں مومنوں کے لیے عبرت کے پورے سامان ہیں جو عذاب الٰہی سے ڈر رکھتے ہیں وہ ان نمونہ کو دیکھ کر اور اس زبردست نشان کو ملاحظہ کر کے پوری عبرت حاصل کر سکتے ہیں “۔
8804



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.