تفسير ابن كثير



سورۃ الحديد

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[12] يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ[13]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جس دن تو ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو دیکھے گا ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کی دائیں طرفوں میں دوڑ رہی ہو گی۔ آج تمھیں ایسے باغوں کی خوش خبری ہے جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہو، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔ [12] جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ان لوگوں سے کہیں گے جو ایمان لائے ہمارا انتظار کرو کہ ہم تمھاری روشنی سے کچھ روشنی حاصل کر لیں۔ کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ، پس کچھ روشنی تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار بنادی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا، اس کی اندرونی جانب، اس میں رحمت ہو گی اور اس کی بیرونی جانب، اس کی طرف عذاب ہو گا۔ [13]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] (قیامت کے دن تو دیکھے گا کہ مومن مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا آج تمہیں ان جنتوں کی خوش خبری ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں ہمیشہ کی رہائش ہے۔ یہ ہے بڑی کامیابی [12] اس دن منافق مرد وعورت ایمان والوں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں۔ جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو۔ پھر ان کے اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازه بھی ہوگا۔ اس کے اندرونی حصہ میں تو رحمت ہوگی اور باہر کی طرف عذاب ہوگا [13]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جس دن تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان (کے ایمان) کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہے (تو ان سے کہا جائے گا کہ) تم کو بشارت ہو (کہ آج تمہارے لئے) باغ ہیں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں ہمیشہ رہو گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے [12] اُس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف سے (شفقت) کیجیئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاؤ اور (وہاں) نور تلاش کرو۔ پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی۔ جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب (واذیت) [13]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 12، 13،

اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا ٭٭

یہاں بیان ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے نیک اعمال کے مطابق انہیں نور ملے گا جو قیامت کے دن کے ان کے ساتھ ساتھ رہے گا۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان میں بعض کا نور پہاڑوں کے برابر ہو گا اور بعض کا کھجوروں کے درختوں کے برابر اور بعض کا کھڑے انسان کے قد کے برابر سب سے کم نور جس گنہگار مومن کا ہو گا اس کے پیر کے انگوٹھے پر نور ہو گا جو کبھی روشن ہوتا ہو گا اور کبھی بجھ جاتا ہو گا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:672/11] ‏‏‏‏
9298

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے بعض مومن ایسے بھی ہوں گے جن کا نور اس قدر ہو گا کہ جس قدر مدینہ سے عدن دور ہے اور ابین دور ہے اور صنعاء دور ہے۔ بعض اس سے کم بعض اس سے کم یہاں تک کہ بعض وہ بھی ہوں گے جن کے نور سے صرف ان کے دونوں قدموں کے پاس ہی اجالا ہو گا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:676/11] ‏‏‏‏

جنادہ بن ابوامیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگو! تمہارے نام مع ولدیت کے اور خاص نشانیوں کے اللہ کے ہاں لکھے ہوئے ہیں اسی طرح تمہارا ہر ظاہر باطن عمل بھی وہاں لکھا ہوا ہے قیامت کے دن نام لے کر پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ اے فلاں یہ تیرا نور ہے اور اے فلاں تیرے لیے کوئی نور ہمارے ہاں نہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اول اول تو ہر شخص کو نور عطا ہو گا لیکن جب پل صراط پر جائیں گے تو منافقوں کا نور بجھ جائے گا اسے دیکھ کر مومن بھی ڈرنے لگیں گے کہ ایسا نہ ہو ہمارا نور بھی بجھ جائے تو اللہ سے دعائیں کریں گے کہ یا اللہ ہمارا نور ہمارے لیے پورا پورا کر۔

حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت سے مراد پل صراط پر نور کا ملنا ہے تاکہ اس اندھیری جگہ سے باآرام گزر جائیں۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے سجدے کی اجازت قیامت کے دن مجھے دی جائے گی اور اسی طرح سب سے پہلے سجدے سے سر اٹھانے کا حکم بھی مجھے ہو گا میں آگے پیچھے دائیں بائیں نظریں ڈالوں گا اور اپنی امت کو پہچان لوں گا۔‏‏‏‏ تو ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول ! نوح علیہ السلام سے لے کر آپ کی امت تک کی تمام امتیں اس میدان میں اکٹھی ہوں گی، ان میں سے آپ اپنی امت کی شناخت کیسے کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض مخصوص نشانیوں کی وجہ سے میری امت کے اعضاء وضو چمک رہے ہوں گے یہ وصف کسی اور امت میں نہ ہو گا اور «فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ» [17-الإسراء:71] ‏‏‏‏ انہیں ان کے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں میں دیئے جائیں گے اور ان کے چہرے چمک رہے ہوں گے اور ان کا نور ان کے آگے آگے چلتا ہو گا اور ان کی اولاد ان کے ساتھ ہی ہو گی ۔ [مستدرک حاکم:478/2:ضعیف] ‏‏‏‏
9299

ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کے دائیں ہاتھ میں ان کا عمل نامہ ہو گا جیسے اور آیتوں میں تشریح ہے۔ ان سے کہا جائے گا کہ آج تمہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے چپے چپے پر چشمے جاری ہیں جہاں سے کبھی نکلنا نہیں، یہ زبردست کامیابی ہے۔

اس کے بعد کی آیت میں میدان قیامت کے ہولناک دل شکن اور کپکپا دینے والے واقعہ کا بیان ہے کہ سوائے سچے ایمان اور کھرے اعمال والوں کے نجات کسی کو منہ دکھائے گی۔

سلیم بن عامر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم ایک جنازے کے ساتھ باب دمشق میں تھے جب جنازے کی نماز ہو چکی اور دفن کا کام شروع ہوا تو ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو! تم اس دنیا کی منزل میں آج صبح شام کر رہے ہو نیکیاں برائیاں کر سکتے ہو اس کے بعد ایک اور منزل کی طرف تم سب کوچ کرنے والے ہو وہ منزل یہی قبر کی ہے جو تنہائی کا، اندھیرے کا، کیڑوں کا اور تنگی اور تاریکی والا گھر ہے مگر جس کے لیے اللہ تعالیٰ اسے وسعت دیدے۔ یہاں سے تم پھر میدان قیامت کے مختلف مقامات پر وارد ہو گے۔ ایک جگہ بہت سے لوگوں کے چہرے سفید ہو جائیں گے اور بہت سے لوگوں کے سیاہ پڑ جائیں گے، پھر ایک اور میدان میں جاؤ گے جہاں سخت اندھیرا ہو گا وہاں ایمانداروں کو نور تقسیم کیا جائے گا اور کافر و منافق بے نور رہ جائے گا، اسی کا ذکر آیت «أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ» [24-النور:40] ‏‏‏‏ میں ہے، «يَجْعَلِ اللَّـهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ» ‏‏‏‏ [24-النور:40] ‏‏‏‏ پس جس طرح آنکھوں والے کی بصارت سے اندھا کوئی نفع حاصل نہیں کر سکتا منافق و کافر ایماندار کے نور سے کچھ فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔ تو منافق ایمانداروں سے آرزو کریں گے کہ اس قدر آگے نہ بڑھ جاؤ کچھ تو ٹھہرو جو ہم بھی تمہارے نور کے سہارے چلیں تو جس طرح یہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ مکر و فریب کرتے تھے آج ان سے کہا جائے گا کہ لوٹ جاؤ اور نور تلاش کر لاؤ یہ واپس نور کی تقسیم کی جگہ جائیں گے لیکن وہاں کچھ نہ پائیں گے، یہی اللہ کا وہ مکر ہے جس کا بیان آیت «إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا» [4-النساء:142] ‏‏‏‏، میں ہے۔ اب لوٹ کر یہاں جو آئیں گے تو دیکھیں گے کہ مومنوں اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل ہو گئی ہے جس کے اس طرف رحمت ہی رحمت ہے اور اس طرف عذاب و سزا ہے۔
9300

پس منافق نور کی تقسیم کے وقت تک دھوکے میں ہی پڑ رہے گا نور مل جانے پر بھید کھل جائے گا تمیز ہو جائے گی اور یہ منافق اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائیں گے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب کامل اندھیرا چھایا ہوا ہو گا کہ کوئی انسان اپنا ہاتھ بھی نہ دیکھ سکے اس وقت اللہ تعالیٰ ایک نور ظاہر کرے گا مسلمان اس طرف جانے لگیں گے تو منافق بھی پیچھے لگ جائیں گے۔ جب مومن زیادہ آگے نکل جائیں گے تو یہ انہیں ٹھہرانے کے لیے آواز دیں گے اور یاد دلائیں گے کہ دنیا میں ہم سب ساتھ ہی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی پردہ پوشی کے لیے ان کے ناموں سے پکارا جائے گا لیکن پل صراط پر تمیز ہو جائے گی، مومنوں کو نور ملے گا اور منافقوں کو بھی ملے گا لیکن جب درمیان میں پہنچ جائیں گے منافقوں کا نور بجھ جائے گا یہ مومنوں کو آواز دیں گے لیکن اس وقت خود مومن خوف زدہ ہو رہے ہوں گے یہ وہ وقت ہو گا کہ ہر ایک آپا دھاپی میں ہو گا۔

جس دیوار کا یہاں ذکر ہے یہ جنت و دوزخ کے درمیان حد فاصل ہو گی اسی کا ذکر آیت «وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ» [7-الاعراف:46] ‏‏‏‏ میں ہے۔ پس جنت میں رحمت اور جہنم میں عذاب۔ ٹھیک بات یہی ہے لیکن بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس کی دیوار ہے جو جہنم کی وادی کے پاس ہو گی۔
9301

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ دیوار بیت المقدس کی شرقی دیوار ہے جس کے باطن میں مسجد وغیرہ ہے اور جس کے ظاہر میں وادی جہنم ہے اور بعض بزرگوں نے بھی یہی کہا ہے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کا مطلب یہ نہیں کہ بعینہ یہی دیوار اس آیت میں مراد ہے بلکہ اس کا ذکر بطور قرب کے معنی میں آیت کی تفسیر میں ان حضرات نے کر دیا ہے اس لیے کہ جنت آسمانوں میں اعلیٰ علیین میں ہے اور جہنم اسفل السافلین میں۔

سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس دروازے کا ذکر اس آیت میں ہے اس سے مراد مسجد کا باب الرحمت ہے یہ بنو اسرائیل کی روایت ہے جو ہمارے لیے سند نہیں بن سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دیوار قیامت کے دن مومنوں اور منافقوں کے درمیان علیحدگی کے لیے کھڑی کی جائے گی مومن تو اس کے دروازے میں سے جا کر جنت میں پہنچ جائیں گے پھر دروازہ بند ہو جائے گا اور منافق حیرت زدہ ظلمت و عذاب میں رہ جائیں گے۔ جیسے کہ دنیا میں بھی یہ لوگ کفر و جہالت شک و حیرت کی اندھیروں میں تھے۔
9302



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.