تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ[44]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟ [44]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟ [44]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (یہ) کیا (عقل کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کئے دیتے ہو، حالانکہ تم کتاب (خدا) بھی پڑھتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟ [44]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 44،

دوغلاپن اور یہودی ٭٭

یعنی اہل کتاب اس علم کے باوجود جو کہے اور نہ کرے اس پر کتنا عذاب نازل ہوتا ہے پھر تم خود ایسا کرنے لگے ہو؟ جیسا دوسروں کو تقویٰ طہارت اور پاکیزگی سکھاتے ہو خود بھی تو اس کے عامل بن جاؤ لوگوں کو روزے نماز کا حکم دینا اور خود اس کے پابند نہ ہونا یہ تو بڑی شرم کی بات ہے دوسروں کو کہنے سے پہلے انسان کو خود عامل ہونا ضروری ہے اپنی کتاب کے ساتھ کفر کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو لیکن اللہ کے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا کر تم خود اپنی ہی کتاب کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کو اس دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کہتے ہو مگر دنیاوی ڈر خوف سے خود قبول نہیں کرتے۔

سیدنا ابوالدردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انسان پورا سمجھ دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگوں کو اللہ کے خلاف کام کرتے ہوئے دیکھ کر ان کا دشمن نہ بن جائے اور اپنے نفس کا ان سے بھی زیادہ۔ ان لوگوں کو اگر رشوت وغیرہ نہ ملتی تو حق بتا دیتے لیکن خود عامل نہ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی۔
252

مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت ٭٭

یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہیئے جیسے شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت «وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ» [ 11-هود: 88 ] ‏‏‏‏ یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں وہ خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے۔ پس نیک کاموں کے کرنے کے لیے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہیئے۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا۔

طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے۔ [طبرانی کبیر:1681:جید] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے۔ [مسند احمد:12879:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏
253

دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی زبانیں اور ہونٹ دونوں کاٹے جا رہے تھے یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں موجود ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:476:صحیح] ‏‏‏‏ سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں کہتے آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تمہیں سنا کر ہی کہوں تو ہی کہنا ہو گا میں تو انہیں پوشیدہ طور پر ہر وقت کہتا رہتا ہوں لیکن میں کسی بات کو پھیلانا نہیں چاہتا اللہ کی قسم میں کسی شخص کو سب سے افضل نہیں کہوں گا اس لیے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ اس کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا جہنمی جمع ہو کر اس سے پوچھیں گے کہ آپ تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے؟ وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا [ مسند احمد ] ‏‏‏‏ بخاری مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔ [صحیح بخاری:3267:صحیح] ‏‏‏‏
254

مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں سے اتنا درگزر کرے گا جتنا جاننے والوں سے نہیں کرے گا بعض آثار میں یہ بھی وارد ہے کہ عالم کو ایک دفعہ بخشا جائے تو عام آدمی کو ستر دفعہ بخشا جاتا ہے عالم جاہل یکساں نہیں ہو سکتے قرآن کریم میں ہے آیت «قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الأَلْبَابِ» [ 39-سورة الزمر: 9 ] ‏‏‏‏ جاننے والے اور انجان برابر نہیں نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں ابن عساکر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم [طبرانی کبیر:150:22:ضعیف] ‏‏‏‏ نے فرمایا۔ جنتی لوگ جہنمیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ تمہاری نصیحتیں سن سن کر ہم تو جنتی بن گئے مگر تم جہنم میں کیوں آ پڑے وہ کہیں گے افسوس ہم تمہیں کہتے تھے لیکن خود نہیں کرتے تھے۔
255

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے کہا میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک تو آیت «أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ» [ البقرہ: 44 ] ‏‏‏‏ کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو؟ دوسری آیت آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ» [ 61-سورة الصف-2، 3 ] ‏‏‏‏ کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو۔ تیسری آیت شعیب علیہ السلام کا فرمان آیت «وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ» [ 11-هود: 88 ] ‏‏‏‏ یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے کہو تم ان تینوں آیتوں سے بے خوف ہو؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو۔ [ تفسیر مردویہ ] ‏‏‏‏

ایک ضعیف حدیث طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں کو کسی قول و فعل کی طرف بلائے اور خود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ خود آپ عمل کرنے لگ جائے۔ [ابو نعیم فی الحلیة7/2:ضعیف] ‏‏‏‏ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ [تفسیر قرطبی:367/1] ‏‏‏‏ نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا۔
256



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.