تفسير ابن كثير



سورۃ الحديد

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ[28] لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ[29]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، وہ تمھیں اپنی رحمت سے دوہرا حصہ دے گا اور تمھارے لیے ایسی روشنی کر دے گا جس کے ذریعے تم چلتے رہو گے اور تمھیں بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [28] تاکہ کتا ب والے یہ نہ جانیں کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے اور (جان لیں) کہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ اسے اس کو دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ [29]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان ﻻؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناه بھی معاف فرمادے گا، اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے [28] یہ اس لیے کہ اہل کتاب جان لیں کہ اللہ کے فضل کے کسی حصہ پر بھی انہیں اختیار نہیں اور یہ کہ (سارا) فضل اللہ ہی کے ہاتھ ہے وه جسے چاہے دے، اور اللہ ہے ہی بڑے فضل واﻻ [29]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مومنو! خدا سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے روشنی کردے گا جس میں چلو گے اور تم کو بخش دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے [28] (یہ باتیں) اس لئے (بیان کی گئی ہیں) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل پر کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے۔ اور یہ کہ فضل خدا ہی کے ہاتھ ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے [29]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 28، 29،

مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مثال ٭٭

اس سے پہلے کی آیت میں بیان ہو چکا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جن مومنوں کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد اہل کتاب کے مومن ہیں اور انہیں دوہرا اجر ملے گا۔

جیسے کہ سورۃ قصص کی آیت میں ہے اور جیسے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ تین شخصوں کو اللہ تعالیٰ دوہرا اجر دے گا ایک وہ اہل کتاب جو اپنے نبی علیہ السلام پر ایمان لایا پھر مجھ پر بھی ایمان لایا اسے دوہرا اجر ہے اور وہ غلام جو اپنے آقا کی تابعداری کرے اور اللہ کا حق بھی ادا کرے اسے بھی دو دو اجر ہیں اور وہ شخص جو اپنی لونڈی کو ادب سکھائے اور بہت اچھا ادب سکھائے یعنی شرعی ادب پھر اسے آزاد کر دے اور نکاح کر دے وہ بھی دوہرے اجر کا مستحق ہے۔ [صحیح بخاری:97] ‏‏‏‏

سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب اہل کتاب اس دوہرے اجر پر فخر کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اس امت کے حق میں نازل فرمائی۔ پس انہیں دوہرے اجر کے بعد نور ہدایت دینے کا بھی وعدہ کیا اور مغفرت کا بھی پس نور اور مغفرت انہیں زیادہ ملی [ابن جریر] ‏‏‏‏

اسی مضمون کی ایک آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ» [8-الانفال:29] ‏‏‏‏ ہے یعنی ” اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمہارے لیے فرقان کرے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا اللہ بڑے فضل والا ہے۔“
9330

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کے ایک بہت بڑے عالم سے دریافت فرمایا کہ تمہیں ایک نیکی پر زیادہ سے زیادہ کس قدر فضیلت ملتی ہے اس نے کہا ساڑھے تین سو تک۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر کیا اور فرمایا ہمیں تم سے دوہرا اجر ملا ہے۔ سعید رحمہ اللہ نے اسے بیان فرما کر یہی آیت پڑھی اور فرمایا اسی طرح جمعہ کا دوہرا اجر ہے۔

مسند احمد کی حدیث میں ہے تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخض جیسی ہے جس نے چند مزدور کسی کام پر لگانے چاہے اور اعلان کیا کہ کوئی ہے جو مجھ سے ایک قیراط لے اور صبح کی نماز سے لے کر آدھے دن تک کام کرے؟ پس یہود تیار ہو گئے، اس نے پھر کہا ظہر سے عصر تک اب جو کام کرے اسے میں ایک قیراط دوں گا، اس پر نصرانی تیار ہوئے کام کیا اور اجرت لی اس نے پھر کہا اب عصر سے مغرب تک جو کام کرے میں اسے دو قیراط دوں گا پس وہ تم مسلمان ہو، اس پر یہود و نصاریٰ بہت بگڑے اور کہنے لگے کام ہم نے زیادہ کیا اور دام انہیں زیادہ ملے۔ ہمیں کم دیا گیا۔ تو انہیں جواب ملا کہ میں نے تمہارا کوئی حق تو نہیں مارا؟ انہوں نے کہا ایسا تو نہیں ہوا۔ جواب ملا کہ پھر یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں دوں۔ [صحیح بخاری:2268] ‏‏‏‏
9331

صحیح بخاری میں ہے مسلمانوں اور یہود نصرانیوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے چند لوگوں کو کام پر لگایا اجرت ٹھہرا لی اور انہوں نے ظہر تک کام کر کے کہہ دیا کہ اب ہمیں ضرورت نہیں جو ہم نے کیا اس کی اجرت بھی نہیں چاہتے اور اب ہم کام بھی نہیں کریں گے، اس نے انہیں سمجھایا بھی کہ ایسا نہ کرو کام پورا کرو اور مزدوری لے جاؤ لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کام ادھورا چھوڑ کر اجرت لیے بغیر چلتے بنے، اس نے اور مزدور لگائے اور کہا کہ باقی کام شام تک تم پورا کرو اور پورے دن کی مزدوری میں تمہیں دوں گا، یہ کام پر لگے، لیکن عصر کے وقت یہ بھی کام سے ہٹ گئے اور کہہ دیا کہ اب ہم سے نہیں ہو سکتا ہمیں آپ کی اجرت نہیں چاہیئے اس نے انہیں بھی سمجھایا کہ دیکھو اب دن باقی ہی کیا رہ گیا ہے تم کام پورا کرو اور اجرت لے جاؤ لیکن یہ نہ مانے اور چلے گئے، اس نے پھر اوروں کو بلایا اور کہا لو تم مغرب تک کام کرو اور دن بھر کی مزدوری لے جاؤ چنانچہ انہوں نے مغرب تک کام کیا اور ان دونوں جماعتوں کی اجرت بھی یہی لے گئے۔ پس یہ ہے ان کی مثال اور اس نور کی مثال جسے انہوں نے قبول کیا۔ [صحیح بخاری:2271] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے یہ اس لیے کہ اہل کتاب یقین کر لیں کہ اللہ جسے دے یہ اس کے لوٹانے کی اور جسے نہ دے اسے دینے کی کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے اور اس بات کو بھی وہ جان لیں کہ فضل و کرم کا مالک صرف وہی پروردگار ہے، اس کے فضل کا کوئی اندازہ و حساب نہیں لگا سکتا۔
9332

امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «لِئَلَّا يَعْلَمَ» کا معنی «لِیَعْلَمَ» ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «لِکَیْ یَعْلَمَ» ہے، اسی طرح عطابن عبداللہ رحمہ اللہ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہی قرأت مروی ہے۔

غرض یہ ہے کہ کلام عرب میں «لا» صلہ کیلئے آتا ہے جو کلام کے اول آخر میں آ جاتا ہے اور وہاں سے انکار مراد نہیں ہوتا جیسے آیت «مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ» [7-الأعراف:12] ‏‏‏‏ میں ہے اور آیت «وَمَا يُشْعِرُكُمْ اَنَّهَآ اِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ» [6-الأنعام:109] ‏‏‏‏ میں اور آیت «وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ» [21-الأنبياء:95] ‏‏‏‏ میں۔

«اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» سورۃ الحدید کی تفسیر ختم ہوئی۔
9333

اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس ستائیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمیں اپنے پاک کلام کی صحیح سمجھ دے اور اس پر عمل کی توفیق دے۔

میرے مہربان اللہ! میرے عاجز ہاتھوں سے اس پاک تفسیر کو پوری کرا، اسے مکمل مطبوع مجھے دکھا دے، مقبولیت عطا فرما اور اس پر ہمیں عمل نصیب فرما۔

اے دلوں کے بھید سے آگاہ اللہ! میری عاجزانہ التماس ہے کہ میرے نامہ اعمال میں اسے ثبت فرما اور میرے تمام گناہوں کا کفارہ اسے کر دے اور اس کے پڑھنے والوں پر رحم فرما اور ان کے دل میں ڈال کہ وہ میرے لیے بھی رحم کی دعا کریں۔

یا رب اپنے سچے دین کی اور اپنے غلاموں کی تائید کر اور اپنے نبی کے کلام کو سب کے کلاموں پر غالب رکھ۔ آمین!
9334



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.