تفسير ابن كثير



سورۃ المجادلة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[12] أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ[13]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم رسول سے سرگوشی کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ پیش کرو، یہ تمھارے لیے زیادہ اچھا اور زیادہ پاکیزہ ہے، پھر اگر نہ پاؤ تو یقینا اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ [12] کیا تم اس سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقے پیش کرو، سو جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تم پر مہربانی فرمائی تو نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ [13]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے مسلمانو! جب تم رسول ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزه تر ہے، ہاں اگر نہ پاؤ تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے [12] کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے سے ڈر گئے؟ پس جب تم نے یہ نہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرما دیا تو اب (بخوبی) نمازوں کو قائم رکھو زکوٰة دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس (سب) سے اللہ (خوب) خبردار ہے [13]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مومنو! جب تم پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور پاکیزگی کی بات ہے۔ اور اگر خیرات تم کو میسر نہ آئے تو خدا بخشنے والا مہربان ہے [12] کیا تم اس سےکہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے؟ پھر جب تم نے (ایسا) نہ کیا اور خدا نے تمہیں معاف کردیا تو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے [13]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 12، 13،

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی منسوخ شرط ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے نبی (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جب تم کوئی راز کی بات کرنا چاہو تو اس سے پہلے میری راہ میں خیرات کرو تاکہ تم پاک صاف ہو جاؤ اور اس قابل بن جاؤ کہ میرے پیغمبر سے مشورہ کر سکو، ہاں اگر کوئی غریب مسکین شخص ہو تو خیر۔ اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کے رحم پر نظریں رکھنی چاہئیں یعنی یہ حکم صرف انہیں ہے جو مالدار ہوں۔
9365

پھر فرمایا شاید تمہیں اس حکم کے باقی رہ جانے کا اندیشہ تھا اور خوف تھا کہ یہ صدقہ نہ جانے کب تک واجب رہے۔ جب تم نے اسے ادا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرما دیا، اب تو اور مذکورہ بالا فرائض کا پوری طرح خیال رکھو، کہا جاتا ہے کہ سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے کا شرف صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا پھر یہ حکم ہٹ گیا، ایک دینار دے کر آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوشیدہ باتیں کیں دس مسائل پوچھے۔ پھر تو یہ حکم ہی ہٹ گیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33788:ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے خود بھی یہ واقعہ بہ تفصیل مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: اس آیت پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا نہ میرے بعد کوئی عمل کر سکا، میرے پاس ایک دینار تھا جسے بھنا کر میں نے دس درہم لے لیے ایک درہم اللہ کے نام پر کسی مسکین کو دے دیا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے سرگوشی کی پھر تو یہ حکم اٹھ گیا تو مجھ سے پہلے بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کر سکتا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33790:مرسل] ‏‏‏‏

ابن جریر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا صدقہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنی چاہیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو بہت ہوئی، فرمایا: پھر آدھا دینار کہا: ہر شخص کو اس کی بھی طاقت نہیں آپ نے فرمایا: اچھا تم ہی بتاؤ کس قدر؟ فرمایا ایک جو برابر سونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ واہ تم تو بڑے ہی زاہد ہو، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پس میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت پر تخفیف کر دی، [سنن ترمذي:3300،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے۔
9366

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مسلمان برابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راز داری کرنے سے پہلے صدقہ نکالا کرتے تھے لیکن زکوٰۃ کے حکم نے اسے اٹھا دیا، آپ فرماتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے کثرت سے سوالات کرنے شروع کر دیئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے کر آپ پر تخفیف کر دی کیونکہ اب لوگوں نے سوالات چھوڑ دیئے، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کشادگی کر دی اور اس حکم کو منسوخ کر دیا، عکرمہ رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے، قتادہ رحمہ اللہ اور مقاتل رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں۔

قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ صرف دن کی چند ساعتوں تک یہ حکم رہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ صرف میں ہی عمل کر سکا تھا اور دن کا تھوڑا ہی حصہ اس حکم کو نازل ہوئے تھا کہ منسوخ ہو گیا۔
9367



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.